عدالت کا مسجد کو پینٹ کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران فیصلہ۔ 10 مارچ کو کیس کی آئندہ سماعت
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے منگل کے روز سنبھل کی جامع مسجد کو ’’متنازعہ مقام‘‘ کے طور پر حوالہ دینے پر اتفاق کر لیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے مغلیہ دور کی اس عمارت کو پینٹ کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے ہندو فریق کی درخواست پر اسٹینوگرافر کو ہدایت دی کہ وہ شاہی مسجد کو ’’متنازعہ ڈھانچہ‘‘ کے طور پر تحریر کرے۔اس کیس کی آئندہ سماعت 10 مارچ کو ہوگی، جب محکمہ آثار قدیمہ اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گا۔یہ معاملہ اس وقت قانونی تنازعہ بنا جب ایک شکایت میں الزام لگایا گیا کہ 16ویں صدی میں مغل بادشاہ بابر نے ہری ہر مندر کو منہدم کر کے مسجد تعمیر کی تھی۔ عدالت کے حکم پر کی گئی ایک سروے کارروائی کے دوران گزشتہ سال نومبر میں سنبھل میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور تشدد ہوا تھا۔مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ میں مسجد کو پینٹ کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دائر کی تھی، جس پر محکمہ آثار قدیمہ نے موقف اختیار کیا کہ فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔ عدالت میں ہندو فریق کے وکیل ہری شنکر جین نے مسجد کمیٹی کے 1927 کے معاہدے کے تحت مسجد کی دیکھ بھال کے دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے مووقف اختیار کیا کہ اس کی ذمہ داری آثار قدیمہ کے محکمے کی ہے۔سماعت کے دوران، ایڈوکیٹ جین نے عدالت سے درخواست کی کہ مسجد کو ’’متنازعہ ڈھانچہ‘‘ کہا جائے، جس پر عدالت نے اتفاق کیا۔ اس کے بعد عدالت نے اسٹینوگرافر کو مسجد کے لیے ’’متنازعہ ڈھانچہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کی ہدایت دی۔28 فروری کو، عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ کو حکم دیا کہ وہ مسجد کی صفائی کا کام کرے، جس میں گرد و غبار اور مسجد کے اندرونی و بیرونی حصے میں اْگی ہوئی جھاڑیوں اور گھاس کی صفائی بھی شامل ہے۔ایڈوکیٹ جین نے اپنے حلف نامے میں دعویٰ کیا کہ مسجد کمیٹی نے اے ایس آئی کی اجازت کے بغیر عمارت میں نمایاں تبدیلیاں کیں، دیواروں اور ستونوں پر رنگ کیا تاکہ ہندو علامات اور نشانات کو چھپایا جا سکے۔