الیکشن سے قبل اوقافی جائیدادوں کی فروخت سے 500 کروڑ روپئے کمائی کا منصوبہ!

,

   

٭ نواحی علاقوں و پڑوسی اضلاع کی قیمتی جائیدادیں نشانہ پر
٭ ریاستی وزراء اور برسر اقتدار قائدین و عہدیداروں کی ساز باز
٭ جامع مسجد چول پلی کی 187 ایکڑ اراضی کی فائیل وقف بورڈ سے غائب
٭ 150 سے زائد رجسٹریاں ہوچکیں۔ نو منتخب ایم ایل سی کا بھی رول !

محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔13۔جولائی۔تلنگانہ میں موقوفہ جائیدادوں کی تباہی کے ذریعہ الیکشن سے قبل 500 کروڑ روپئے برسراقتدار جماعت کو چاہئے تاکہ وہ آئندہ اسمبلی انتخابا ت میں کامیابی یقینی بنایا جاسکے ۔ مسلمانوں کی جائیدادوں کو تباہ کرکے دولت بٹورنے اقدامات کئے جارہے ہیں! برسر اقتدار جماعت کے قائدین بشمول وزراء کے علاوہ ارکان اسمبلی اوقافی جائیدادوں کو تباہ کرنے دباؤ بنا رہے ہیں اور ان کی تباہی کیلئے وقف بورڈ کے ایک رکن و بعض عہدیداروںکی جانب سے اوقافی جائیدادوں کی تباہی کے ذمہ دار اور قابضین کی مدد کے ذریعہ یومیہ لاکھوں روپئے وصول کئے جار ہے ہیں ۔ تلنگانہ وقف بورڈ میں شعبہ لیگل کے ذریعہ اب تک مقدمات میں عدم پیروی کے ذریعہ قابضین کو مدد کی جاتی تھی لیکن اب جو صورتحال ہے وہ انتہائی تباہ کن ہے بلکہ یہ کہا جا رہاہے کہ وقف جائیدادوں کو حکومت کی جانب سے ’آٹولاک ‘ کرنے اقدامات کے باوجود ان جائیدادوں پر رجسٹری کا عمل جاری ہے۔ نواحی علاقوں و پڑوسی اضلاع میں موقوفہ جائیدادوں کی تباہی کا جو سلسلہ شروع کیا گیا اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کروائی جانی ناگزیر ہے کیونکہ تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں کی تباہی میں صرف بورڈ کے ذمہ داریا عہدیدار ہی نہیں بلکہ حکومت کے وزراء ‘ ارکان اسمبلی اور ایک نو منتخبہ ایم ایل سی بھی ملوث ہیں۔ عاشور خانہ علی سعد ؒ اور سیف نواز جنگ وقف جائیداد کی تباہی و سپریم کورٹ میں عدم پیروی کی مسلسل شکایات کے دوران اب انکشاف ہوا کہ ایک رکن اسمبلی کے علاوہ ایک سابق مرکزی وزیر کے ملوث ہونے کی وجہ سے کوئی کاروائی نہیں کی جار ہی ہے ۔اسی طرح وقف بورڈ جامع مسجد چول پلی کے تحت موقوفہ 187 ایکڑ اراضی جو کہ پدا منگلارم معین آباد منڈل میں ہے محفوظ کرنے سے قاصر ہے جبکہ متعلقہ مسجد کے ذمہ داراس اراضی کی تباہی اور اس پر قبضہ جات کے علاوہ موقوفہ جائیداد کے رجسٹریشن کے شکایات مسلسل وقف بورڈ میں کر رہے ہیں لیکن وقف بورڈ عہدیداراس جائیداد کو ’آٹو لاک‘ کروانے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نواحی علاقہ کی ایک وزیر کے علاوہ وقارآباد کے دو ارکان اسمبلی اس پر قبضہ کرواتے ہوئے رجسٹریشن کروارہے ہیں ۔ گذشتہ کئی ہفتوں سے ان رجسٹریشن کا سلسلہ جاری ہے ۔ جامع مسجد چول پلی کے علاوہ درگاہ حضرت شاہ راجو قتال حسینی ؒ کے تحت موقوفہ اراضی جو کہ’کونگراخرد‘ میں ہے اس میں مقدمات میں پیروی سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ بعض مقدمات میں جواب داخل کرکے یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ وقف بورڈ اس اراضی کے تحفظ میں سنجیدہ ہے۔ ذرائع کے مطابق برسراقتدار جماعت کے اعلیٰ قائدین نے مختلف اضلاع میں کروڑہا روپئے مالیاتی موقوفہ اراضی کو تباہ کرکے انتخابات سے قبل دولت اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی منصوبہ کے تحت جامع مسجد چول پلی کی موقوفہ اراضی کو ’آٹو لاک‘ کروانے کے بجائے ان کے رجسٹریشن کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جو جائیدادوں کے تحفظ کے خلاف ہے۔ وقف بورڈ کے 6اپریل کے اجلاس میں شاد نگر میں جامع مسجد چول پلی کی انتظامی کمیٹی کو منظور ی دی گئی لیکن کمیٹی کو مسجد کے تحت موضع یلکا گوڑہ ‘ معین آباد منڈل میں موجود 187 ایکڑ 27گنٹہ اراضی جوکہ 1987 میں عدالت سے مقدمہ میں کامیابی کے بعد وقف بورڈ کے حوالہ کی گئی تھی اس اراضی پر اب 150 سے زائد رجسٹری ہوچکے ہیں ۔ وقف بورڈ کو متعلقہ افراد نے ماہ فروری سے اب تک زائد از تین مرتبہ یادداشت حوالہ کرکے اراضی کے تحفظ کیلئے ’آٹو لاک ‘ کرنے کی خواہش کی گئی تھی لیکن اب اس جائیداد کی مکمل فائل وقف بورڈ سے غائب ہے ۔ آرٹی آئی میں درخواست داخل کئے جانے کے ساتھ ہی فائل سیکشن سے غائب ہوچکی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو کوئی ان جائیدادوں کے رجسٹریشن کی راہ ہموار کر رہے ہیں وہ اس جائیداد کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوششوں بلکہ بورڈ میں جاری کاروائی سے اچھی طرح واقف ہے اسی لئے اب فائیل غائب کردی گئی ۔ اسی طرح گچی باؤلی کے قریب 15ایکڑ اراضی جو کہ وقف بورڈکی تحویل میں ہے اس کی بھی فروخت کی کوششیں تیز ہوچکی ہیں اور کہا جا رہاہے کہ اس اراضی کی فروخت کیلئے ذمہ داروں کو ایک اور وزیر کی سرپرستی حاصل ہے جو عرصہ سے اس جائیداد پر نگاہیں رکھے ہوئے تھے اور اس معاملہ میں نو منتخبہ ایم ایل سی کے ملوث ہونے کی بھی اطلاعات ہیں اور یہ باور کروایا جا رہاہے کہ جس ادارہ کے تحت یہ اراضی ہے وہ ادارہ اور وقف بورڈ مذکورہ اراضی کے مقدمہ میں شکست کھا چکے ہیں جبکہ اس مقدمہ میں شکست کے باوجود انتہائی قیمتی موقوفہ اراضی کے کئی حصہ اب بھی وقف بورڈ اور متولی کے قبضہ میں ہیں جنہیں فروخت کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔(جاری…)