الیکشن کمشنر کے تقرر پر سپریم کورٹ کی برہمی

   

روش کمار
کیا الیکشن کمیشن میں اپنا آدمی اپنا ایوکت ، اپنا ایوکت اپنا کمیشن بنانے کا کھیل چل رہا تھا۔ آخر ایسی کیا مجبوری رہی کہ کسی کو الیکشن کمشنر بنانے کیلئے سارے فیصلے بجلی کی تیزی سے لئے گئے۔ فیصلوں کی رفتار اتنی تیز تھی کہ سپریم کورٹ کو بھی شک ہوگیا اور اب عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کی طرح الیکشن کمشنر کے تقرر اور ہٹانے کا بھی سسٹم بنا دیا ہے۔ G-20 کی تشہیر کے ساتھ مدر آف ڈیموکریسی (جمہوریت کی ماں) کا نعرہ آپ کو چاروں طرف دکھائے دے رہا ہوگا اور اسی بیچ یہ خبر بھی کہ مدر آف ڈیموکریسی کے الیکشن کمشنر کے تقرر میں کس طرح کا کھیل چل رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مدر آف ڈیموکریسی میں سارے فیصلے ’’فادر آف پاور‘‘ ہی طئے کررہے ہیں۔ مدر آف ڈیموکریسی باورچی خانہ میں آٹا گوندھ رہی ہے۔ 75 سال رٹتے رہے کہ یہ نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا، لیکن 8 سال میں یہ کیوں نہیں دکھا کہ الیکشن کمشنرس کے تقررات کس طرح سے کئے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنر کے تقرر کو لے کر جو فیصلہ دیا ہے، اسے ہر کسی کو پڑھنا چاہئے۔ حکم نامہ میں آپ کو یہ جاننے کا موقع نہیں ملے گا کہ آگے سے کیا ہوگا بلکہ یہ بھی جان سکیں گے کہ اس وقت اور اس سے پہلے کیا کھیل چل رہا ہوگا۔ اپنا آدمی اپنا کمشنر اور اپنا کمیشن (الیکشن کمیشن) کا نعرہ چل رہا تھا۔ الیکشن کمشنر کے تقرر کو لے کر اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس پرشانت بھوشن، ڈاکٹر جیہ ٹھاکر اور اشونی کمار اُپادھیائے نے الگ الگ وقتوں پر کئی درخواستیں دائر کی تھیں۔ جسٹس اجئے رستوگی نے دریافت کیا کہ 24 گھنٹوں میں تقرر بھی ہوگیا۔ اتنی تیزی سے کیسے سارے پہلوؤں کی جانچ پڑتال کی گئی۔ کس بنیاد پر وزیر قانون نے 40 میں سے 4 ناموں کو شارٹ لسٹ کیا؟ عدالت نے کہا کہ تقرر کے طریقہ کار پر حکومت کے جواب پر عدالت مطمئن نہیں ہے۔ جسٹس بوس نے بھی کہا کہ اس قدر تیز رفتاری سے ارون گوئل کا تقرر شک و شبہ پیدا کرتا ہے۔ جسٹس رستوگی کہتے ہیں کہ اس دن طریقہ کار شروع ہوتا ہے، اسی دن تقرر ہوجاتا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ الیکشن کمشنر کے تقرر کا طریقہ کار کیا ہے؟ بار کورٹ کی روایت یہی ہے کہ دیش کو گھٹنوں کے بل جھک کر حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے والا الیکشن کمشنر نہیں چاہئے۔ جی حضوریہ نہیں چاہئے۔ تو کیا حکومت جی حضوریہ کا تقرر کررہی تھی؟ ملک بھر میں لاکھوں نوجوان سرکاری ملازمتوں (مخلوعہ جائیدادوں) پر بھی بھرتیوں کے انتظار میں تین چار سال تو گنوا ہی دیتے ہیں، مہینوں انتظار کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو سمجھ نہیں آئے گا کہ ان کے امتحان کا نتیجہ تین سال میں بھی نہیں آتا اور اس سرکاری سسٹم میں الیکشن کمشنر 24 گھنٹوں میں مقرر کردیئے جاتے ہیں۔ الیکشن کمشنر ارون گوئل اپنے بارے میں اس فیصلہ کو پڑھ رہے ہوں گے تو انہیں کیا لگے گا؟ کیا وہ ان سوالوں سے گذر رہے ہوں گے کہ عدالت کے ان ریمارکس کے بعد ان کا اس عہدہ پر برقرار رہنا ٹھیک نہیں۔ ہٹانے کا طریقہ کار جو بھی ہو، کم سے کم اخلاقی طور پر ٹھیک نہیں لگتا۔ کوئی پوچھنے کی ہمت تو نہیں کرے گا، نہ ہی کسی نے کہا ہے کہ ارون گوئل کو الیکشن کمشنر کے عہدہ سے استعفی دے دینا چاہئے، لیکن کیا ارون گوئل کا ضمیر ان سے یہ سوال کررہا ہوگا کہ دستوری بینچ کے فیصلے میں ارون گوئل کے بارے میں جو لکھا گیا ہے کہ ہم اس کا مفہوم پیش کررہے ہیں؟دستوری بینچ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس تقرر کے ضمن میں کچھ خاص چیزوں کو نوٹ کیا جانا چاہئے۔ 15 مئی 2022ء سے یہ عہدہ خالی پڑا ہوا تھا۔ 17 نومبر کو دستوری بینچ نے سماعت کی اور اگلے ہی دن یعنی 18 نومبر کو بھی سماعت ہوئی۔ عبوری درخواست بینچ کے سامنے طویل تھی تب ہی حکومت کی سفارش کو وزارت قانون آگے بڑھاتا ہے اور وزیراعظم اس سفارش کو منظوری دیتے ہیں۔ دستوری بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ارون گوئل ڈسمبر 2022ء میں سبکدوش ہونے والے تھے، وہ مرضی سے سبکدوش ہوتے ہیں یعنی VRS لیتے ہیں۔ چار لوگوں کے پیانل میں سب سے کم عمر والے وہی تھے۔ وزیراعظم کو سفارش روانہ کی جاتی ہے کہ ان کی عمر اور ان کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمشنر کے عہدہ کیلئے قابل سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی دن وزیراعظم بھی منظوری دیتے ہیں، اسی دن ان کی سبکدوش ہونے کے احکامات کو بھی منظور کرلیا جاتا ہے، کیا اب بھی آپ نہیں سمجھیں گے، ارون گوئل کا تقرر الیکشن کمشنر کے عہدہ پر ہو، اس کیلئے اندرون 24 گھنٹے وزارت قانون سے لے کر دفتر وزیراعظم اور راشٹرپتی بھون اتنی پھرتی سے کام کرنے لگے۔ عدالت نے غیرمعمولی طریقہ سب سے کردار اجاگر کردیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دیا ہے ،مطلب جس دن سبکدوش ہوتے ہیں، اسی دن الیکشن کمشنر بنادیئے جاتے ہیں۔ دستوری بینچ نے لکھا ہے کہ ہمیں تھوڑی حیرانی ہے کہ اگر عہدہ دار کو الیکشن کمشنر کے عہدہ پر مقرر کئے جانے کی آگہی نہیں ہوگی تو انہوں نے 18 نومبر کو ہی رضاکارانہ طور پر سبکدوش کی درخواست کیوں دی۔ آپ سمجھیں اس کھیل کو کیا سب شکوک و شبہات پیدا کرنے کی وجوہات نہیں ہیں؟ کیا انہیں (ارون گوئل کو ) پتہ نہیں ہوگا کہ انہیں الیکشن کمشنر بنایا جانا ہے، اس لئے ایک ماہ قبل سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ عدالت نے یہی تو پوچھا ہے تاکہ اگر ایسی کوئی جانکاری نہیں تھی کہ الیکشن کمشنر بنایا جاتا ہے تو اس دن VRS کی درخواست کیوں دی؟ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے میں اگر کوئی حصہ (یہی حصہ تاریخی ہے) اگر یہ حصہ تاریخی مانا جاتا ہے تو ارون گوئل کی تقرری پر دستوری بینچ کے تبصرے پر کوئی کارروائی ہونی چاہئے۔ اس لئے ہمارا سوال ہے کہ الیکشن کمشنر جب یہ فیصلہ پڑھ رہا ہوگا یا پڑھے گا، سب کے ساتھ تو الیکشن کمشنر ارون گوئل کیا خود کو اس فیصلے سے الگ کرپائیں گے؟ کیا اس فیصلے نے ان کی تقریر پر شبہات ظاہر نہیں کئے ہیں، اگر سپریم کورٹ نے حیران ہے یا شکوک ظاہر کردیا ہے تو کیا انہیں خود سے یہ عہدہ چھوڑ دینا نہیں چاہئے۔ سوال بہت سخت ہے مگر سوال اگر ہیں تو صحیح ہیں؟ سماعت کے دوران دستوری بینچ نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا جس طرح سے تقرری ہورہی ہے، اس سے اس عہدہ پر کوئی آزاد شخصیت آسکتی ہے۔ جسٹس سی ٹی وی کمار نے حکومت سے پوچھا کہ ہمیشہ کسی نوکر شاہ کو ہی الیکشن کمشنر کیوں بنایا جاتا ہے؟ سپریم کورٹ کی دستوری بینچ نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن میں کیا سدھار ہوتا کہ اس کی شفافیت خطرہ میں نہ پڑے۔ چار دنوں تک سماعت ہوتی۔ اس حکم کے بعد حکومت کو جواب دینا چاہئے۔ عوام کے درمیان جاکر وزارت قانون، وزیراعظم کو بھی جواب دینا چاہئے کہ الیکشن کمشنر کے عہدہ پر ارون گوئل کی تقرری پر سپریم کورٹ نے جو لکھا ہے، اس پر ان کا کیا کہنا ہے؟ کیا اس کیلئے بھی ہمیں ان کے پاس جاتا ہوگا جنہیں اجولا یوجنا کے تحت سلنڈر ملا ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت گھر ملا ہے اور بجلی کا کنکشن ملا ہے۔ الیکشن کمشنر کے تقرر کو لے کر جو بحث چل رہی ہے اور اس پر جو فیصلہ آیا ہے، اس کے بہانہ پچھلے 8 برسوں کے دوران جو انتخابات ہوئے ہیں، ان پر جو سوال اٹھے ہیں۔ الیکشن کمیشن پر جو الزام لگے ہیں۔ ان پر توجہ دینی فطری ہے۔ انتخابی مہم اور ریالیوں میں کسی ایک جماعت کو چھوٹ ملی یا صرف یہ الزام تھے؟ وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کی جانچ کرنے پر کسی عہدہ دار کو معطل کیوں کیا گیا، یہ سب چلتا ہے ، مان لیا گیا۔