روش کمار
گذشتہ چند دنوں سے ایک خاتون منتادیوی کے کافی چرچے ہیں اور لوگوں میں یہ جاننے کیلئے کافی تجسس پایا جاتا ہیکہ آخر یہ منتادیوی کون ہے جن کی تصاویر والے ٹی شرٹس اپوزیشن قائدین زیب تن کرکے پارلیمنٹ کے باہر مودی حکومت۔ الیکشن کمیشن کے خلاف ووٹ چوری کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاج کررہے ہیں۔ شکون رانی، گرکی رتھ اور آدتیہ سریواستو جیسے عظیم اور موضوع بحث بنے ہوئے رائے دہندوں کی فہرست میں منتادیوی بھی شامل ہوگئی ہیں۔ 12 اگست کو پارلیمنٹ کامپلکس میں اپوزیشن کے بے شمار قائدین سفید ٹی شرٹ پہن کر احتجاج کررہے تھے۔ ان کی ٹی شرٹ پر ایک خاتون کی تصویر ہے لکھا ہے منتادیوی۔ منتادیوی کی عمر 124 سال بتائی جاتی ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہیکہ پہلی بار ووٹر بننے کے فارم میں منتادیوی کا نام ہے۔ فارم 6 میں 124 سال کی خاتون کا نام کیسے ہوسکتا ہے جبکہ دنیا میں اس عمر کا کوئی مرد اور عورت بقید حیات نہیں ہے ایسا دعویٰ کیا گیا سوشل میڈیا میں۔ منتادیوی کو لیکر کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر بحث چل رہی تھی۔ اب اپوزیشن نے ان کے نام کی ٹی شرٹ پہن لی۔ راہول گاندھی کی پریس کانفرنس نے ووٹرلسٹ کو دیکھنے کا پورا نظریہ بدل دیا ہے۔ ووٹرلسٹ کو ابھی تک بوتھ ایجنٹ کے حوالے کردیا جاتا تھا وہ اسی کی پراپرٹی مانی جاتی تھی لیکن اب ووٹرلسٹ کا معاملہ قومی سطح کا ہوگیا ہے۔ ایک ایک نام کی کھوج کی جارہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا لوک سبھا انتخابات کے وقت فارم 17C کی چرچا شروع ہوئی۔ صحافی پونم اگروال کے باعث سیاسی قائدین بھی فارم 17C کا مطالبہ کرنے لگے اس سے پتہ چل جاتا تھا کہ ایک بوتھ پر کتنے ووٹرس ہیں اور جملہ کتنے ووٹوں کا استعمال ہوا ہے۔ یہ اصول تو پہلے سے تھا الیکشن کمیشن کی کتابوں میں لیکن 17C کو لیکر شعور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ہی بیدار ہوا۔ اتنی چرچا ہوئی کہ الیکشن کمیشن اور اس بہاو میں بہنے والے عظیم شاعر راجیوکمار بھی جھنجھلا گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 17C میرے خیال میں آج کے دن پورے ملک میں اسی فارم کی چرچا ہے۔ سب سے زیادہ مقبول فارم وہی ہے یو پی ایس سی امتحان لکھنے والوں اور سارے طلباء کو امتحان لکھنے کیلئے تیاری کرنی چاہئے کہ 17C کیا ہوتا ہے۔ یہ پیاٹرن ہے اور ڈیزائن ہے جب بھی عوام اپنے حقوق کو لیکر خواب غفلت سے بیدار ہوتی ہے الیکشن کمیشن اسی قسم کے جواب دینے لگ جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے بہار میں SIR سے لیکر راہول گاندھی کے تمام اور سنگین الزامات کے بعد بھی ایک پریس کانفرنس طلب نہیں کی۔ عدالت میں معاملہ تو اب آیا ہے کورٹ میں معاملہ جانے سے پہلے پریس کانفرنس کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی اس کے بعد بھی ووٹر لسٹ کا معاملہ تھما نہیں، بڑے پیمانے پر لوگوں کے درمیان پہنچ چکا ہے۔ شکون رانی، گرکی رتھ اور ادتیہ سریواستو کا نام راہول گاندھی نے لیا تو ان کی تحقیقات ہونے لگ گئی۔ ایک پارلیمانی حلقہ میں ایک لاکھ ووٹوں کی چوری (فرضی ووٹرس کے ہونے) کا الزام الیکشن کمیشن کی دستاویزات سے نکلا ہے لیکن اس ایک لاکھ میں سے صرف تین چار ناموں کی چرچا ہورہی ہے۔ شکون رانی ایک کیس اسٹڈی بن گئی ہیں کہ کیسے ان کے ذریعہ راہول گاندھی کے دعوؤں کو غلط ثابت کیا جارہا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر Fact Cheker محمد زبیر شکون رانی سے جڑے اتنے سارے دلائل و ثبوت لے آئے ہیں کہ یہ کہانی ختم نہیں ہورہی ہے۔ اب آپ کے سامنے شکون رانی اور ان کے شوہر ویریندر کمار کے تین تین ووٹر آئی ڈی کارڈس ہیں تو یہ بات ملک کے سامنے آنی چاہئے کہ ان ہی دونوں نے تین تین جگہوں پر ووٹ ڈالے یا ان کی طرف سے کوئی اور ووٹ دے رہا تھا۔ شکون رانی کی کہانی دو سوالوں سے شروع ہوتی ہے۔ پہلا سوال عمر 70 سال ہے۔ اس عمر میں انہوں نے فارم 6 کیوں بھرا۔ دوسرا سوال ان کے دونوں ووٹر آئی ڈی سے ووٹ ڈالا گیا ہے۔ فارم 6 وہی بھرتے ہیں جو پہلی بار ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ فارم 6 کے اوپر صاف صاف لکھا ہے کہ یہ نئے ووٹر کیلئے ہے۔ شکون رانی کی عمر 70 سال ہے۔ انہوں نے فارم 6 کیوں بھرا۔ 70 سال کی عمر میں شکون رانی نے ایک نہیں دو دو فارم 6 بھردیا۔ پہلا فارم 13 ستمبر 2023ء کو بنگلورو میں بھرتی ہیں اور دوسرا فارم بھی بنگلورو میں 31 اکٹوبر 2023ء کو بھرا جاتا ہے۔ راہول گاندھی نے دونوں فارمس دکھا کر بتایا کہ کیسے دونوں تصاویر میں تھوڑاسا فرق ہے۔ اس کے علاوہ ایک جگہ نام شکون اور رانی الگ الگ کام میں لکھا ہوا ہے اور دوسری جگہ ایک ساتھ شکون رانی لکھا ہے۔ راہول نے بی ایل او کی جانب سے ٹک کئے گئے الیکٹورل رول کو دکھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ شکون کی دونوں آئی ڈیز سے ووٹ ڈالے گئے۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ شکون رانی نے خود فارم بھرا یا کسی اور نے بھر دیا۔ یہ تو تحقیقات کا معاملہ ہے۔ میڈیا کو محسوس ہوا کہ شکون رانی کا نام یوں ہی لے لیا گیا ہے۔ اتنا تو سوچنا چاہئے کہ الیکشن کمیشن نے جو دستاویز دیئے ہیں اسی کی مدد سے شکون رانی کی تفصیلات منظرعام پر آئی ہیں۔ شکون رانی کا نام فارم 6 کے ضمن میں آیا ہے۔ اکیلے ان کا نام نہیں آیا ہے۔ ایسے 33 ہزار 692 ووٹرس ہیں جنہوں نے صرف ایک پارلیمانی حلقہ میں فارم 6 بھرا ہے۔ کیا صرف ایک نام کی چیکنگ سے کام ہوجائے گا کوشش یہی ہورہی تھی کہ کسی طرح شکون رانی پر راہول گاندھی کے دعوؤں کو غلط ثابت کردیا جائے تاکہ باقی سوالوں کو بھی دفن کردیا جائے۔ آخر شکون رانی کی کہانی کو جھٹلانے کی کوشش ہورہی ہے تو باقی کے 33 ہزار ووٹرس کی کہانی کو کیوں نہیں جھٹلا پارہے ہیں؟ ایک اسمبلی حلقہ میں 33 ہزار پہلی بار ووٹ ڈالنے والے نہیں ہوسکتے۔ کیا ہوسکتے ہیں اس کی جانچ ہونی چاہئے۔ فارم 6 کے سوال کو غائب کردیا گیا ہے۔ اس فارم میں 33 ہزار سے زیادہ لوگوں کے نام ہیں پھر سے بتارہے ہیں ان کی جانچ پڑتال کیوں نہیں ہورہی ہے۔ 9 اگست کو کرناٹک کے الیکشن کمیشن کے عہدیدار نے راہول گاندھی کو نوٹس بھیجا کہ جب شکون رانی سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک ہی مرتبہ ووٹ ڈالا ہے دو بار نہیں۔ یہی نہیں جس کاغذ پر نشان لگا ہے اسے پولنگ آفیسر نے جاری نہیں کیا۔ اپنی نوٹس میں الیکشن کمیشن کے عہدیدار نے راہول سے وہ کاغذ مانگے ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شکون رانی یا کسی اور نے ان کے نام پر دو بار ووٹ ڈالے۔ اس نوٹس میں فارم 6 سے جڑے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے کیا یہی الیکشن کمیشن کی جانچ ہوئی؟ راہول گاندھی نے ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال سے لیکر 98 سال عمر کے 33 ہزار لوگوں نے فارم 6 بھرے ہیں (ان لوگوں نے ہی یہ فارم بھرے ہیں یا دوسروں نے یہ بھرا ہے) مہادیو پورہ ایک پارلیمانی حلقہ ہے اس میں 11 ہزار سے زائد جعلی رائے دہندے کیسے نکل آئے۔ 40 ہزار سے زائد رائے دہندوں کے پتے فرضی کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیا یہ معمولی بات ہے۔ اگر ایک حلقہ میں ایک لاکھ ووٹر فرضی ہوں گے تو اس کی تحقیقات کیوں نہیں ہونی چاہئے۔ اگر تمام علاقوں میں ایسا ہے تو سوال کیوں نہیں پوچھا جارہا ہے کہ آپ اتنے سال سے کیا کررہے تھے؟ ہر سال جب فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کا کام ہوتا ہے تو اس کے بعد بھی اتنی گڑبڑ کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہیکہ الیکشن کمیشن کے پاس فہرست رائے دہندگان تیار کرنے کی پیشہ وارانہ صلاحیت و مہارت نہیں ہے۔ بہرحال شکون رانی کی کہانی میں کتنے موڑ آتے جارہے ہیں ان کی کہانی ختم نہیں ہورہی ہے۔ ان کے بارے میں جب لوگوں نے اور بھی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ ان کے شوہر ویریندر کے نام پر بھی تین ووٹر آئی ڈی درج ہیں۔ کرناٹک کے مہادیو پورہ کے علاوہ اترپردیش کے ایٹاوا کی سکندر پارلیمانی حلقہ میں اور بہار کے سمستی پور میں ان کا نام دیکھا گیا۔ آخر ان کے نام سے مذکورہ حلقوں میں ووٹر شناختی کارڈ کیسے بن گیا۔ ان تینوں کارڈ سے کب کب ووٹ استعمال کیا گیا اس کی جانکاری الیکشن کمیشن کو دینی چاہئے۔ بہار میں ایس آئی آر کے تحت جو فہرست جاری ہوئی ہے اس میں 5 ہزار ووٹرس یوپی کے ہیں۔ صرف بالمیکی نگر میں ایک ہزار سے زائدووٹر یو پی کے ہیں۔ یو پی اور بہار ان دونوں مقامات پر ایک ہی تفصیل کے ساتھ ان کے نام درج ہیں۔ اب چلتے ہیں یوگیندر یادو کی طرف انہوں نے سپریم کورٹ میں سب کو لاجواب کردیا۔ عدالت عظمی نے بھی ان کے دلائل کی سماعت کی۔ پہلے دس منٹ دیئے لیکن یوگیندر یادو نے نصف گھنٹے تک اپنی بات رکھی۔ عدالت نے بھی ان سے سوال و جواب کئے۔ یادو نے ان باتوں کو سمیٹ دیا جو منظرعام پر نہیں آئی تھیں۔ انہوں نے ایک سوال پوچھا کہ بہار میں SIR کے دوران 8 کروڑ رائے دہندوں کے پاس جانے کی کوشش کی گئی اور نیا نام جوڑنے کیلئے نہیں ملا؟ کیا الیکشن کمیشن کو ایک بھی ایسا نام نہیں ملا جسے ڈرافٹ میں جوڑا جاسکتا ہے۔ یوگیندر نے کہا کہ زیرو اضافہ ہے حذف ہے نظرثانی نہیں یہ پوری طرح غیرقانونی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو بھی ان کی بات یاد دلائی کہ عدالت نے کہا ہیکہ بڑے پیمانے پر یا اجتماعی طور پر نام حذف نہیں ہونے دیں گے۔ 65 لاکھ لوگوں کے نام حذف کرنے کو لیکر یادو نے کہا کہ اس کے تحت صرف اور صرف نام ہی حذف کئے جارہے ہیں تو کیا آپ نے اس طرح سے سوچا تھا پوچھا تھا کہ ایک بھی نام نہیں جوڑا گیا کیسے ہوا۔