امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کئی دماغوں کا ایک انسان | ✍🏼 مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ

,

   

۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء کو مولانا آزاد رخصت ہوگئے۔ اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے!

وقت گذرتے کیا دیر لگتی ہے، دیکھتے دیکھتے پچپن سال بیت گئے، ایک پوری نسل ماں کے آغوش سے نکلی،بچپن بتایا، جوانی گذاری ، اوراب بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی ہے،وقت کتنا تیز گذرا،مگر گذرنا اور گذرجانا تو وقت کا مقدر ہے، اور ایک وقت ہی کیا، ہر چیز گذر جاتی ہے___ اس پورے عرصہ میں زندگی برتنے کا انداز بدلا، گھر کی تہذیب میں بڑا فرق آگیا، باہر کا ماحول زیرو زبر ہوگیا، پسند اور نا پسندیدگی کیمعیار میں ہی فرق نہیں آیا، پیمانے بھی بدل گئے، اور تبدیلی کا یہ عمل مسلسل جاری ہے__ لگتا ہے کہ شکست وریخت کے عمل نے رفتار پکڑلی ہے، اور’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں‘‘_!میں نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولیں، جس آنگن میں چلنا بولنا سیکھا، جن تعلیم گاہوں میں میری تعلیم اور تربیت ہوئی، وہاںیہ بتایا جاتاتھا کہ انسان کیا ہے، اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ کردار کی بلند ی کیسی نعمت ہے؟ انسانیت کے تقاضے کیا ہیں؟ہاں !یہ بتایا جاتا کہ بی اماں کون تھیں، محمدعلی، شوکت علی کن جیالوں کا نام تھا، گاندھی جی کی کیا اہمیت ہے؟ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ کیا ہؤا، ہندوستان پرانگریزوں کے دخل قبضہ روکنے کے لیے ٹیپو سلطان نے کس بہادری سے جان دی، گھریلو تذکروں کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی ہمت وجرأت ، وطن سے محبت اور سائنس وٹکنالوجی میں ان کی مہارت کا نقش دل میں ایسا جما کہ بڑھاپے میں بھی ان یادوں کے ذرے حوصلوں کو تازہ کرتے ہیں!بچپن کی یہ تربیت ،بڑوں کے تذکرے اور بھلی باتوں کا ذکر مسلسل ،سونچنے، سمجھنے، برتنے اور زندگی جینے کے انداز کو بدل ڈالتا ہے، اس انداز تربیت سے کردار میں پختگی آتی ہے، اور ماضی کی قدروں اور روایتوں کا رشتہ حال سے پیوست ہوتا اور مستقبل سے جڑتا ہے__ ان تذکروں کا ایک اثر وہ کیفیت تھی، جو میں نے امام الہند مولانا آزاد کے انتقال کی خبر کے بعد اپنے گھر کے اندر اور باہردیکھی، صبح صبح رضی بھائی آئے، آنسوؤ ں سے روتے بلکتے او رکہا: ’’مولانا آزاد گذرگئے‘‘ ایسا محسوس ہؤا کہ ہاتھوں سے کوئی نعمت چھن گئی میں نے مولانا آزاد کو دیکھانہیں تھا، چرچے گھر میں سنے تھے، تھوڑا سا پڑھا تھا، تو ان سے رشتہ سا محسوس ہوتا تھا، عقیدت ہوگئی تھی، اب جو انتقال کی خبر ملی، تو جھٹکا سا لگا!ہمارے رضی بھائی نے چچا جان کے کمرہ کے باہر ایک مرحوم قسم کا ریڈیو لگادیا، جو مولاناکے سرکاری گھر کاآنکھوں دیکھا حال نشر کررہا تھا، کئی آوازیں ’’اس آنکھوں دیکھی‘‘ کوپھیلانے میں جٹی تھیں، یا دآتا ہے ان میں سب سے پاٹ دار آواز شیوساگر مصر کی تھی، جو رہ رہ کر رندھ جاتی، ڈوب جاتی، اور کوئی دوسرا کمان سنبھال لیتا، یہ رنگ تھا مولانا سے عقیدت اور محبت کا __ خانقاہ رحمانی کے تمام لوگ سارے کام بھول گئے، انہیں ناشتہ بھی یاد نہ رہا، ریڈیو کے گرد جمع سب لوگ سن رہے تھے، آنسو، آہیں، سسک، کڑھن چبھن، ایسی آہ جو دبائے نہ دبے، دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا، اور دفن کے بعد بھی دیرتک ریڈیوسے آواز بلند ہوتی رہی، لوگ دور دور کے لوگ سنتے رہے۔بعد میں یہ بھی خبر لگی کہ مولانا کا جنازہ جب قبر میں اتارا جارہا تھا، تو ایک شخص جسم وجان کی پرواہ کیے بغیر دھکا دیتے اور دھکا کھاتے قبر تک پہونچا__ یہ تھے جنا ب شورش کاشمیری، چٹان کے ایڈیٹر ، آزادی سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعدبھی جیل کی سلاخوں سے مانوس، اور بیس سال جیل میں زندگی گذارنے والے، پاکستان میں مولانا کے اعلانیہ عقیدتمند اور ان کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ، قلم سے تکا بوٹی کرنے پر آمادہ __سنا کہ قبر میں مولانا کا چہرہ دکھایا گیا، جناب شورش نے دیکھا اور دیکھتے رہے__ پھر جناب شورش جیسے عجیب وغریب شاعر، جس کی زبان سے شاعر کاکوئی شعر کسی نے نہیں سنا تھا، کی زبان سے یہ مصرعے لوگوں نے سنے:کئی دماغوں کا ایک انساں میں سونچتا ہوں کہاں گیا ہےقلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زباں سے زور بیاں گیا ہےاتر گئے منزلوں پہ چہرے، امیرکیا کارواں گیا ہےمگر تیری مرگ ناگہاں کامجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے!دیکھتے دیکھتے جناب شورش کے احساسات اور برسوں کے تجربات شعری ڈھانچہ میں ڈھلتے چلے گئے ۔ چوبیس اشعار اورچھ بندوں پر مشتمل یہ شہکار نظم قبر پر کھڑے کھڑے کہدیا،جسے نئے انداز نئے آہنگ کامرثیہ کہا جاسکتا ہے، اور جو شورش کاشمیری صاحب کی طرف سے امام الہندمولانا آزادؒ کی خدمت میں بہترین خراج عقیدت ہے،ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا آئینہ دار ،اور برجستہ گوئی کا شہکارہے، ۱۰؍ مارچ ۱۹۵۸ء کے ہفت روزہ چٹان لاہور کے ادارتی صفحہ پر اسے جگہ دی گئی۔پھر اخبارات اور رسالوں نے اسے اہتمام کے ساتھ شائع کیا، بعض کتابوں میں یہ خراج عقیدت محفوظ ہے۔ یہ مرحلے گذرگئے، اسکی سوگوار یاد میرے دل پر نقش ہے __اسکا ایک اثر یہ ہؤا کہ مولانا آزاد کو میں نے پڑھنا شروع کردیا، ان کی جتنی تحریریں ملیں، پڑھ گیا، چاہے وہ الہلال ،البلاغ کی فائلیں ہوں،مولانا شروانی کے نام خطوط ہوں،غبار خاطر یا کچھ اور۔ مولانا کی عربی اور فارسی زدہ اردو پورے طور پر تو کیا سمجھ میں آتی، مگر وہ تھی بڑی رواں دواں، میں اس روانی میں بہتارہا اور مولانا کے ساحل سے قریب ہوتا رہا __مولانا پر جو کچھ لکھا گیا، کوشش کی، وہ ساری چیزیں تلاش کیں، کچھ تو بس مل گئیں، اور بعض کو خریدا اور پڑھتا رہا، اس زمانہ میں مولانا کی عظمت، ہمہ گیر صلاحیت اور انفرادیت کا جونقش جمیل دل میں گھرکرگیا، اسکے روشن نقوش دل میں آج بھی ہیں۔مولاناآزاد ایک بڑے پیر اور بڑے عالم کے صاحبزادہ تھے، دنیا کے کئی ممالک میں ان کے والد مولانا خیر الدین کے مریدپھیلے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی مقبولیت دی تھی، کلکتہ تو انکامسکن ہی تھا، وہ عیدین کے امام اور ناخدا مسجد کے خطیب تھے، اوران ساری حیثیتوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں جو مرکزیت حاصل تھی، عقیدتمند اسکا پرتو صاحبزادہ میں بھی دیکھ لیتے تھے، مولانا آزاداپنے مزاج و انداز کے لحاظ سے والد ماجد سے خاصے مختلف تھے، وہ نہ پیر کہلانے کیلئے تیار تھے، نہ لوگوں کی صف بستگی انہیں جچتی تھی، اور ہاتھ چموانے سے تو انہیں خاصی کراہت تھی، مگر عقیدت اور محبت کے انداز ہی نرالے ہوتے ہیں یہ انداز سکھائے نہیں جاتے،آجاتے ہیں۔ محبت تم کو انداز محبت خود سکھادیگی والا معاملہ ہوتا ہے۔مولاناکی کم آمیزی اور مجمع سے دوری کی وجہ جو بھی رہی ہو۔ مگر ایک عالم اور ایک عوامی لیڈر کیلئے یہ سادگی اور بے نیازی مہنگی پڑتی ہے، اور اسکے اثرات مولانا کی زندگی میں بھی سامنے آئے،اور آتے رہے گاندھی جی کلکتہ پہونچے، اور وقت لئے بغیر مولانا کے گھر پہونچ گئے ،مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی، مولانا آزاد کے دست راست، نے گاندھی جی کو بٹھایا، اور تیزرفتاری کے ساتھ مکان کے اوپر کی منزل پر پہونچے۔ مولانا مطالعہ میں مشغول تھے ’’گاندھی جی آئے ہیں، انہیں نچلی منزل میں بٹھایا ہے،‘‘ مولانا ملیح آبادی نے کہا؛۔’’ یہ میرے مطالعہ کا وقت ہے، ان سے کہدیجئے کہ شام کو آئیں‘‘ یہ مولانا آزاد کا جواب اور گاندھی کے استقبال کا انداز تھا، مولانا ملیح آبادی نے پھر یاد دہانی کی ’’گاندھی جی ہیں‘‘ __مگر مولانا اپنے جواب پر قائم، اپنے انداز پر اٹل گاندھی جی واپس چلے گئے، اور پھر شام کو آئے!وقت کی پابندی بڑی خوبی ہے، اور زندگی کے بھرپور استعمال کابنیادی نسخہ مگر سیاست کی وادی میں بیدردی کے ساتھ جو خزانہ خالی کیا جاتا ہے، وہ روپئے سے زیادہ ’’وقت ‘‘ کاہے، اور مرحلہ خاردار میں ’’خون تمنا ‘‘ نہیں دیکھا جاتا، زندگی اور اچھی خاصی بھلی زندگی اور قیمتی وقت کو قاتل سیاست کے حوالہ کرنا پڑتا ہے، مولانا قعر دریا میں رہ کر دامن کو خشک رکھنے کی کوشش کرتے رہے، ’’سچ ہؤ ا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں‘‘؟گاندھی جی کے ساتھ یہ خشک رویہ صوفی منش عالم دین کا ہو، تو چلے گا، مگر جس وادی پر خار کے ہمارے مولانا شہسوار تھے، اس کے آداب کے مطابق یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے، یہ رویہ باعظمت جتنا ما نا جائے، پُر حکمت نہیں مانا جاسکتااور پھر عوام کے جذبہ دیدار پر برقعہ پوشی ’’عوام کے مرکز خیال‘‘ سے میل نہیں کھاتا۔ عوام اور خواص کومتأثر کرنے کی مولانا میں بے پنا ہ صلاحیت تھی، ان کا علم ، ان کی خطابت،ان کا سراپا،ان کی شخصیت، ان کا انداز، ان کی وجاہت، ان کا فکری تسلسل ، ان کی دین وشریعت پر نظر اور پھر اپنے نقطہ کو پیش کرنے کی منطقی ترتیب نے ہم عصروں اوربڑے بڑوں میں مولانا کو ’’عظیم تر‘‘ کے درجہ پہ بٹھارکھا تھا۔ بھوپال میں عوامی اجلاس تھا، مجمع بڑا تھا، اور مخالفوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، وہ بھی لاٹھی، چھرے اورگڈاسے،بلّم سے آراستہ، مولانا اس’’ خطرناک مجمع ‘‘میں بولنے کے لیے بے چین نظر آرہے تھے، جیسے ہی ناظم اجلاس نے مولانا کا نام لینا شروع کیا ، مولانا کھڑے ہوئے اورذرا دائیں جانب رخ کرکے تقریر شروع کردی، تھوڑی دیر میں لاٹھی،چھرے ہاتھوں سے چھوٹے اور مجمع ششدر، مبہوت، بلکہ مسحور پندرہ بیس منٹ کے بعد مولانا نے رخ بدلااوربائیں رخ پرذرا گھوم گئے، تو سارا مجمع زیرو زبر، مولانا کو سامنے سے دیکھ کر سننے کے لیے مجمع اِدھر سے اُدھرہوگیا، مولانا اس سحر انگیز خطابت کے مالک تھے!مگر مولانا ’’بھیڑ‘‘ میں تنہا انسان تھے، بے حد شریف النفس، پر اعتماد ، دوسروں کی انسانیت اور شرافت پر اعتماد کرنے والے ،انہوں نے کبھی اپنا گروپ نہیں بنایا، وہ سب کو اپنا سمجھتے تھے، یہی مولانا کی بڑی طاقت تھی، اور یہی سب سے بڑی کمزوری! جس وقت پنڈت جواہر لال نہرو خاموش ہوگئے،اور گاندھی جی نے پاکستان بننا قبول کرلیا، مولاناکواپنی کمزوری اور تنہائی کاپورا احساس ہؤا ہوگا، مولانا کی نگاہوں کے سامنے خیالوں کا ’’تاج محل‘‘ بکھر چکا تھامجھے ایسا لگتا ہے کہ ۹؍۱۱ میں امریکن ٹریڈ ٹاور کو پگھلتے، بکھرتے اور گرتے دیکھ کر معصوم اوربے خبر امریکیوں پرجو بیتی ہوگی،وہی حال ’’فیصلہ تقسیم وطن ‘‘ پر مولانا کاہؤا ہوگا، اور جس طرح امریکی شیاطین اس حادثہ اور اپنی سازش پر مطمئن رہے، آزادی وطن کے وقت بھارت کے’’شریف لوگ‘‘ مطمئن رہے ہوں گے اور تقسیم وطن کے ساتھ ملنے والی آزادی اور انسانی خون کی ارزانی نے کس دوہری بے چارگی میں مولاناکو مبتلا کردیا ہوگا؟ اب بھی ذرا سونچ لیجئے۔ میرا یہ بھی احساس ہے کہ جداگانہ طریق انتخاب کے موقعہ پر مولانا آزاد ؒ کا جو ذہن تھا، اور جمیعۃ علماء ہندکی جیسی پالیسی تھی، اس کے مطابق ان کے ہمنواؤں نے پوری توانائی کانگریس کو ووٹ ڈلوانے پر لگادی ، پھر بھی ناکامی حصہ میں آئی، اورنتیجہ میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت قرارپائی، اگر علماء ہند مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ، مولانا عبد الصمد رحمانی، حضرت مولانامنت اللہ رحمانی کی راہ پر چلی ہوتی، اور کانگریس کی جگہ اپنے لیے ووٹ مانگا ہوتا،توعام مسلمانوں میں اس حلقہ کی یہ تصویر بنتی کہ یہ لوگ اپنی سیاست کرنے والے ہیں اور اقتدار میں ساجھے داری کی سیاست کررہے ہیں،اس طرح نہ مسلم لیگ کے ورکرس کو زیادہ کہنے کا موقعہ ملتااور نہ ہمارے بزرگوں کا حلقہ سکڑتابلکہ شاید خود کانگریس کی سیاست بھی بدل جاتی، اور ملک کا نقشہ دوسراہوتا۔ سیاست میں رواداری کچھ ہی دور تک چلاکرتی ہے، چانکیہ سے لے کر میکاویلی تک اور رانا سانگا سے لے کر شیواجی تک کا یہی سبق رہا ہے، اور یہی طریقہ سکّہ رائج الوقت بنا ہؤا ہے__غیر مسلم لیگی مسلمانوں نے رواداری کی حد کردی اور ٹھیٹھ مذہبی روایت پسندی کی راہ اپنائی،جس کے نتیجہ میں سیاسی فیصلہ اور بروقت اقدام کا طریقہ نہیں اپنا یا گیا، مشکل حالات میں نئی راہ بنالینے کی تکنک بھی دھری کی دھری رہ گئی،ٹھٹھک ٹھٹھک کر ساتھ ساتھ چلتے رہے،رواداری، شرافت اور روایت کی پوری پاسداری کیجاتی رہی، اور یہ حقیقت بھی نظر انداز ہوگئی کہ ریل اور جیل کی دوستی کو جب اقتدار کی حرارت سے واسطہ پڑتا ہے، تو دوستی بھاپ بن کر اڑجاتی ہے ، اورہماری سرزمین نے یہ بھی سکھایا کہ اقتدار کی ہانڈی استحصال اور استعمال کے چولھے پر کھدکتی ہے!میرا احساس ہے کہ مولانا کے وجود کا جو تحفہ دربار الٰہی سے ملا تھا، اور ایک بے مثال ہمہ جہت عالم دین کی جو شخصیت تھی، وہ آزادی ہند کی تحریک پر قربان ہوگئی، اور اتنی بڑی قربانی کے بعد ملک کو جو لیڈر ملا، اس نے فقرو فاقہ کی زندگی گذاری، قوم نے کبھی نہیں سونچا کہ اتنے بڑے لیڈر کی بھی کچھ بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں، جو اسکے قدوقامت کے لحاظ سے ہوتی ہیں، __ اس عظیم لیڈر کی بات نہ کانگریس کے لیڈروں نے مانی اور نہ عام طور پر مسلمانوں نے میں ایسامانتاہوں کہ آزادی کے فوراً بعد کے پرآشوب حالات میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا آخری خطاب جامع مسجد کی سیڑھیوں سے ہؤا، اور اس تاریخی خطاب کے بعد، میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مولانا کا انتقال ہوگیا۔ مگر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد جس صفحہ پر لکھا تھا، وہ پلٹ گیا، اب دوسرا صفحہ سامنے تھا مولانا ابوالکلام آزاد۔وزیرتعلیم حکومت ہند!

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ