استنبول: استنبول میں میئر اکرم امام اوگلو کو جیل منتقل کیے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر اتوار کی شام مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ان دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرے اس وقت شدت اختیار کر گئے جب ڈیوٹی پر موجود فوجداری مجسٹریٹ عدالت نے بلدیہ کے خلاف حکام کی جانب سے بدعنوانی کی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر استنبول کے میئر کے ساتھ 18 مشتبہ افراد کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔اس کے بعد ترک حکومت نے اکرم امام اوگلو کی ڈیوٹی معطل کر کے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ انہیں متعدد دیگر ملزموں کے ساتھ مرمرہ جیل، جسے سلیوری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، استنبول کے مغرب میں منتقل کر دیا گیا۔ ان کا تعلق اپوزیشن کی ریپبلکن پیپلز پارٹی سے ہے۔دریں اثناء اکرم امام اوگلو نے ترکوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی گرفتاری کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں۔ “X” پلیٹ فارم پر اپنے اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں انہوں نے کرمنل مجسٹریٹ کورٹ کے فیصلے کو ملک کی جمہوریت پر “داغ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا ہم مل کر اپنی جمہوریت سے اس داغ کو مٹا دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج ترکیہ کو دھوکہ دیا گیا ہے۔ میرا مقدمہ “غیر منصفانہ” تھا۔اوگلو نے زور دیا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی دباؤ کے سامنے جھکیں گے۔ انہوں نے کہا “میں ثابت قدم اور مضبوط رہوں گا اور جھکوں گا نہیں “۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اس عمل کو منظم کیا ہے ان کا محاسبہ کیا جائے گا۔واضح رہے گرفتار ہونے والوں میں اوگلو کے علاوہ میونسپلٹی سے منسلک میڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین مرات اونگون اور استنبول پلاننگ ایجنسی کے چیئرمین بگرا گوکس اور دیگر افراد بھی شامل ہیں۔ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت اور یورپی رہنماؤں نے صدر ایردوان کے اہم ترین سیاسی حریف کے خلاف ان اقدامات کو سیاسی بنیادوں پر قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
واضح رہے مارچ 2019 میں پہلی بار میئر منتخب ہونے کے بعد سے استنبول کے میئر کے خلاف یہ چھٹی اور دو ماہ سے بھی کم عرصے میں تیسری تحقیقات ہیں۔ اکرم اوگلو نے اس وقت شہرت حاصل کی تھی جب انہوں نے جون 2019 میں الیکشن جیت کر استنبول کے میئر کیلئے ایردوان کے امیدوار کو بے دخل کردیا تھا۔