امبیڈکر نے منوسمرتی کیوں جلائی؟

   

رام پنیانی
کون بنے گا کروڑ پتی (کے بی سی) یقینا ٹی وی چیانلس پر نشر کئے جانے والے بڑے اور انتہائی کامیاب ترین پروگرامس میں سے ایک ہے۔ اس پروگرام میں حصہ لینے والے مرد و خواتین، طلبا و طالبات کو بڑے انعامات سے نوازا جاتا ہے یعنی کروڑہا روپے انعامات جیتنے کا اس پروگرام میں امکان پایا جاتا ہے۔ اپنے حالیہ ایپی سوڈ (کرم یوگ، نومبر 2020) میں امیتابھ بچن نے جو اس پروگرام کے میزبان ہیں۔ اسکرپٹ پر عمل کرتے ہوئے یہ سوال کیا کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے کونسی کتاب جلائی تھی؟ اس سوال کا درست جواب منو سمرتی تھا ۔ اس شو میں بحیثیت مہمان ممتاز سماجی جہدکار بیزواڑہ ویلسن نے شرکت کی۔ جہاں تک بیزواڑہ ویلسن کا سوال ہے وہ ذات پات کے مخالف اور انسانی گندگی کی انسانوں کے ہاتھوں صفائی کے سخت خلاف ہیں۔

امیتابھ بچن کے اس پروگرام میں پوچھے گئے اس سوال پر شرکاء کے ایک گوشہ نے شدید احتجاج کیا، جبکہ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اس سوال کی ستائش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ منوسمریتی میں ذات پات کی سخت نوعیت کو اجاگر کیا گیا۔ کون بنے گا کروڑ پتی میں اس سوال پر جو لوگ برہم ہوئے ان لوگوں نے اسے ہندو مذہب کی توہین و تضحیک قرار دیا۔ ان کے خیال میں امیتابھ بچن کی جانب سے پوچھے گئے سوال سے ان کے جذبات مجروح ہوئے اور ان لوگوں نے اسے ہندو سماج کو تقسیم کرنے کی ایک کوشش کی حیثیت سے دیکھا۔ اس ضمن میں ایک ٹوئٹ بڑا دلچسپ تھا جس میں کہا گیا کہ دراصل مایوسی کے عالم میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو ہندو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا حالانکہ وہ ہندو دشمن نہیں تھے۔ یہ لوگ دراصل ذات کی بنیاد پر ہندو معاشرہ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

ردعمل کے طور پر پروگرام کے میزبان اور شو کے پیچھے کارفرما دیگر افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی اور الزام عائد کیا گیا کہ اس پروگرام کے میزبان نے جو سوال پوچھا ہے اس سے ہندووں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہندو قوم پرستی کے اطراف گھومنے والی پالیسی کے حامی امبیڈکر کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جس کے نظریات انہیں کی طرح تھے حالانکہ آج کے ہندو قوم پرستوں اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے خیالات میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ جہاں تک بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیموں کا سوال ہے ان کے قائدین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی شخصیت کو ایک پیچیدہ شخصیت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں کبھی یہ لوگ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی ستائش کرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریات کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتے ہیں، کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے زندگی بھر دلتوں کو معاشرہ میں مساویانہ مقام دلانے کی جدوجہد کی اور آخری دم تک وہ اسی نظریہ پر قائم رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس اینڈ کمپنی ڈاکٹر امبیڈکر کی پیدائشی تقاریب بڑی دھوم دھام سے مناتی ہے۔ اسی طرح کے ایک پروگرام میں جو 2016 میں منعقد ہوا تھا وزیر اعظم مودی نے یہ کہا تھا کہ وہ امبیڈکر کے بڑے بھکت ہیں، یہی نہیں بلکہ مسٹر مودی نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا تقابل مارٹن لوتھر کنگ جونیر سے کیا تھا۔ وہی نریندر مودی نے ایک کتاب لکھی ہے ’’کرم یوگ‘‘ (اب یہ کتاب واپس لے لی گئی ہے، اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ نالیوں، موریوں اور گندگی کی صفائی اپنے ہاتھوں سے والمیکی کرتے ہیں، یہ ایک باطنی تجربہ ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کون بنے گا کروڑ پتی میں بحیثیت مہمان شرکت کرنے والے بیزواڑہ ویلسن کئی دہوں سے ہاتھ سے گندگی کی جو صفائی کی پریٹکس چل رہی یا رواج قائم ہے اس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ موریوں، گندی نالیوں وغیرہ کی صفائی انسان نہیں بلکہ مشینوں سے کروائی جائے۔ ایک اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہتے ہوئے آواز اٹھائی کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے منوسمریتی جیسی کتاب کو نذر آتش کیا اور اس سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اب وہی لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت کے معاملہ میں آزادیٔ اظہار خیال کی بڑی شدت کے ساتھ مدافعت کررہے ہیں۔ ان کارٹونس کے سلسلہ میں پھوٹ پڑے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس میں چار زندگیوں کا خاتمہ ہوگیا اور اس کی وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ گستاخانہ کارٹونس سے برہم ہوکر یہ کارروائی کی گئی۔ جہاں تک بابا صاحب امبیڈکر کا سوال ہے وہ ہندوستان کے بلند قامت ایسے دانشور تھے جنہوں نے ذات پات، عدم مساوات، چھوت چھات کے خلاف پورے جوش و خروش کے ساتھ تحریک چلائی اور ہندوازم پر تنقید کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ببانگ دہل ہندوازم پر تنقید کی۔ وہ ہندوازم کو برہمنی نظریہ کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ بابا صاحب امبیڈکر کا یہ ماننا تھا کہ کبیر ان کے دوسرے گرو ہیں۔ بہرحال ہم نے ان کی زندگی اور تحریری کام سے جو کچھ سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے پیار محبت اور بھکتی روایات کے اقدار کو برقرار رکھا۔ وہ اس حقیقت سے واقف ہوچکے تھے کہ ہندوازم پر برہمن ازم حاوی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا ماننا تھا کہ ہندوازم دراصل برہمن نظریات کا نچوڑ ہے اور برہمنی اقدار حقیقت میں منوسمرتی ہے۔ اس کے متبادل انہوں نے دلتوں کے حق میں جدوجہد کی خاص طور پر دلتوں کو اچھوت مان کر انہیں پینے کے پانی تک رسائی نہیں دی جاتی تھی۔ اس سلسلہ میں چاودار تالاب اور مندروں (کالارام مندر) میں داخلے کو یقینی بنانے کے لئے جدوجہد کی اور جس وقت منوسمرتی کو نذرآتش کیا گیا اس پر آج تک ہندووں کا ایک گوشہ برہمی کا اظہار کرتا ہے کیونکہ ہندو سماج کا ایک گوشہ اسے مقدس کتاب مانتا ہے۔

آج ایسے بے شمار لوگ ہیں جو ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ منوسمرتی کون پڑھتا ہے اور اس پر کون عمل کرتا ہے؟ اس میں دو عوامل شامل ہیں ایک تو یہ کہ سنسکرت متن کئی لوگ نہیں پڑھ سکتے، اس کے باوجود منوسمرتی کا اثر پایا جاتا ہے اس کے اقدار کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ہندووں کے کئی طبقات اسے مانتے ہیں۔ اکشے مکل نے گیتا پریس کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے ہمیں گیتا پریس گورکھپور کے اثر و رسوخ کے بارے میں بتایا کہ وہ کثیر ہندو آبادی کی سوچ و فکر کو کس طرح شکل دے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں تمام ریلوے اسٹیشنس اور دیگر مقامات پر آپ کو گیتا پریس کے اسٹالس نظر آئیں گے جہاں انتہائی کم قیمتوں پر کتابیں دستیاب رہیں گی جس میں منوسمرتی کے اقدار کو پیش کیا گیا ہوگا۔ مجھے بھی ایک ایسی ہی کتاب دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی ، وہ کتاب ہندو خواتین کے فرائض پر لکھی گئی تھی۔کتاب میں منوسمرتی کو بہت ہی آسان اور مقبول عام زبان میں پیش کیا گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر مزید حیرت ہوئی کہ اس کتاب کی قیمت صرف 5 روپے رکھی گئی تھی اور لاکھوں کی تعداد میں وہ فروخت ہو رہی تھی۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ امبیڈکر ہندو دشمن نہیں تھے جبکہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ میں ہندو پیدا ہوا ہوں لیکن ہندو کی حیثیت سے نہیں مروں گا۔ امبیڈکر نے تقسیم پر اپنی کتاب میں لکھا کہ اگر ہندو راج ایک حقیقت بنتا ہے تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے عظیم ملک کے لئے بڑی تباہی ہوگی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے مطابق ہندو کیا کہتے ہیں اسے دیکھنا نہیں ہے بلکہ ہندوازم، آزادی، مساوات اور اخوت کے لئے خطرہ ہے اور یہ جمہوریت کے متضاد ہے۔ ایسے میں ہندو راج کو کسی بھی قیمت پر روکنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے اس قدر سخت جملوں کے باوجود ایک چالبازی کے تحت نریندر مودی کیمپ انہیں ہندوتوا کا حامی بتانے کی کوشش کررہا ہے جبکہ ان کے نظریہ سے راہ فرار اختیار کی جارہی ہے۔ دلتوں کو ہندو قوم پرستی کی سیاست کا سپاہی بناکر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور بعض دلت لیڈر اقتدار کی ہوس میں ان کی چالبازیوں اور مکاریوں کا شکار بن رہے ہیں۔ حال ہی میں چراغ پاسوان نے جو کچھ کہا وہ اس کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مودی کا ہنومان ہوں۔ آج دلتوں کے لئے مساوات اور انصاف کے لئے کام کرنے والے قائدین اور سماجی جہد کار بہت کم ہیں اور ان کی کاوشوں میں بے شمار رکا