امریکہ، آرامکو پر حملہ کرنے والے ملک کیخلاف فوجی کارروائی کرنے تیار

   

= امریکی صدر ٹرمپ کا سعودی کو پہلی بار بذریعہ ٹوئٹ تیقن، بشرطیکہ سعودی اپنے حملہ آور دشمن کی نشاندہی کرے
= پومپیو ایران کو حملہ آور قرار دینے اپنے موقف پر اٹل
= آرامکو کی تیل پیداوار میں نصف کمی

واشنگٹن۔16 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی تیل کمپنی آرامکو پر ہوئے ڈرون حملوں کے بعد شاید پہلی بار سعودی کو بالواسطہ یہ تیقن دیا ہے کہ جس نے بھی حملہ کیا ہے اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے امریکہ پوری طرح تیار ہے۔ ضرورت ہے تو صرف سعودی عرب کے اشارے کی۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کل ہی کہہ دیا تھا کہ آرامکو کمپنی پر ڈرون حملہ کے لیے صرف اور صرف ایران ذمہ دار ہے اور امریکی صدر نے بھی آرامکو پر حملہ آور (ایران) کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا سعودی کو اشارہ دیا ہے کیوں کہ ڈرون حملوں کے بعد آرامکو نے اپنی تیل کی پیداوار میں نصف کمی کردی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سعودی اور امریکہ خاطیوں کو جانتا ہے اور اس کی مکمل طور پر توثیق ہونے کے بعد فوجی کارروائی کا متبادل بھی موجود ہے۔ لہٰذا سعودی کی جانب سے بھی اس بات کی طمانیت حاصل ہونی چاہئے کہ وہ (سعودی عرب) حملہ کے لیے کس کو ذمہ دار سمجھتا ہے اور ہم (امریکہ) کس بنیاد پر اس خاطی کے خلاف پیشرفت کریں۔ ٹرمپ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ یاد رہے کہ ایران کی حمایت والے حوثی باغیوں نے ہفتہ کے روز آرامکو کے تیل پلانٹس پر حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے حملہ کے لیے ایران کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یمن کی جانب سے اس حملہ کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے شراکت دار اور حلیف ممالک کے ساتھ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مارکیٹس میں تیل سربراہی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے اور وہ بدستور تمام ممالک کو ملتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو اپنی اس حرکت کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا جبکہ ایران نے امریکہ کے الزام کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ جہاں وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا کہ امریکہ کے یہ بے بنیاد الزامات بالکل بے معنی اور من گھڑت ہیں جو دراصل ایران کی نیک نامی کو داغدار کرنے اور اسلامی جمہوریت کے خلاف مستقبل میں کوئی فوجی (یادیگر) کارروائی کرنے کی راہ ہموار کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ جہاں ایک طرف الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے وہیں عراق اپنے دونوں حلیف ممالک یعنی ایران اور امریکہ کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ اس نے میڈیا میں گشت کرتی ہوئی ان قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کردیا جہاں شک کی سوئی عراق کی جانب سے جاری تھی اور یہ کہا جارہا ہے کہ ڈرون حملے عراق نے کروائے ہوں گے۔ سعودی والیعہد محمد بن سلمان کا یہ استدلال ہے کہ خاطی یہ نہ سمجھیں کہ سعودی جارحیت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر ہم نے عزم کرلیا تو ہم جارحانہ رخ بھی اختیار کرسکتے ہیں اور دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ مشرق وسطی امور کے ماہر سمجھے جانے والے جیمس ڈورسی نے کہا کہ ایسے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے ایران کے تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے۔ سعودی اس معاملہ میں راست طور پر ملوث ہونا نہیں چاہے گا بلکہ وہ یہ چاہے گا کہ اس کے لیے یہ جنگ دوسرے لوگ لڑیں اور جو دوسرے لوگ ہیں وہ اس کے لیے بخوشی راضی نہیں ہیں۔ جیمس ڈورسی کا تعلق ایس راجہ رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹیڈیز سنگاپور سے ہے۔