امریکہ، ایران کے نیوکلیئر پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ اور اس کی ترقی پر فکر مند

   

ٹرمپ انتظامیہ نے فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی کو نرم یا ترک کردیا ہے، کابینی ارکان کے تاثرات
واشنگٹن۔ 3 جون (ایجنسیز) امریکی حکام نے العربیہ اور الحدث کو بتایا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ارکان ایران کے معاملے پر بات کرتے ہوئے سابق صدر جو بائیڈن کی پالیسی کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تہران کے ساتھ کسی حل تک پہنچنے کے حوالے سے امریکی صدر کا لہجہ زیادہ پر امید ہو گیا ہے۔ ٹرمپ نے اور ان کی انتظامیہ کے ارکان نے بھی فوجی طاقت کے استعمال کی بار بار دھمکی کو نرم یا ترک کر دیا ہے اور امریکیوں نے اب صرف ایک شرط برقرار رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہیے۔حکام نے مزید کہا ہے کہ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی بیان بازی میں یہ تمام تبدیلی کسی اور وجہ سے نہیں ہے بلکہ موجودہ انتظامیہ میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ صدر روسی صدر پوتین سے شدید مایوسی اور یوکرین میں جنگ روکنے میں ناکامی کے بعد کوئی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔صدر کی سوچ کے قریب ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ ٹرمپ کچھ ایسا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ایک تاریخی کامیابی ہو اور ایرانی مسئلہ ایسا ہے جس سے امید ہے کہ وہ ٹرمپ کے لیے ایسی کامیابی لا سکتا ہے۔ امریکی اہلکار ، جس نے العربیہ سے بات کی، نے وضاحت کی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے سے ابراہیم معاہدے کو وسعت دینے کی راہ ہموار ہوگی۔امریکی اہلکار نے العربیہ اور الحدث سے بات کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ انتظامیہ ایران کے ساتھ مذاکراتی حل چاہتی ہے کیونکہ فوجی اور سفارتی طور پر یہ بہت مہنگا حل ہوگا اور مشرق وسطیٰ کو تباہ کر دے گا۔ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک اہم قوت رکھتا ہے۔ طیارہ بردار بحری جہاز کارل ونسن خلیج عدن میں تعینات ہے اور ایک برطانوی طیارہ بردار جہاز اس فورس میں شامل ہوا ہے۔ F-35 لڑاکا طیاروں اور امریکی افواج کا ایک سکواڈرن سینٹرل کمانڈ کے علاقے میں تعینات ہے۔ امریکی فضائیہ بحر ہند میں ڈیاگو گارسیا ایئر بیس پر متعدد B-52 بمبار طیاروں کی دیکھ بھال بھی کر رہی ہے۔ العربیہ سے بات کرنے والے ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ امریکہ کے پاس خطے میں دفاعی اور جارحانہ آپشنز موجود ہیں لیکن پیغام اب امید کیا دیا جارہا ہے۔امریکی انتظامیہ کی “لچک” میں کردار ادا کرنے والے سب سے نمایاں عوامل میں سے ایک اس کی انٹیلی جنس صلاحیتیں ہیں۔ امریکی ایرانی راز جانتے ہیں اور ایرانی نیوکلیئر پروگرام کی تفصیلات سے پردہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دو سال قبل ایک امریکی اہلکار نے العربیہ کو اس کی تصدیق کی تھی اور موجودہ انتظامیہ کے ذرائع نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے العربیہ کو بتایا ہے کہ ہم ایٹمی پروگرام کی تفصیلات دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک امریکی اہلکار نے العربیہ کو بتایا کہ نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں ہمارے علم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکی صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور امریکہ اس پروگرام کی ترقی سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کا سفارتی حل چاہتے ہیں۔
موجودہ انتظامیہ کے ترجمان کبھی کبھار یہ دعویٰ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ ٹرمپ کی موجودہ پالیسی میں ان کے پیش رو جو بائیڈن کے نقطہ نظر کے پہلو موجود ہیں لیکن وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ٹرمپ مختلف ہے، وہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل فوجی کارروائی کے ذریعے ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو سبوتاڑ کردیا جائے۔ ٹرمپ خطے میں سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ انتشار پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے۔ایک امریکی اہلکار نے تبصرہ کیا ہے کہ ہم جنگیں شروع کرنا جانتے ہیں، لیکن ہم ان پر، ان کے راستوں یا ان کے اثرات کو کنٹرول نہیں کرسکتے اور ہم نہیں جانتے کہ جنگیں شروع ہوجائیں تو یہ کیسے ختم ہوں گی۔ شاید امریکی اب مشرق وسطیٰ اور دنیا کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مستقبل میں کوئی بھی معاہدہ خطے اور دنیا کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ کسی بھی امریکہ ایران معاہدے میں ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کافی اقدامات شامل ہوں گے اور یہ اقدامات شاید اس بات کی نشاندہی کریں کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں سلامتی کا بنیادی ضامن ہے۔