پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
ہندوستان میں درآمدات اور برآمدات کا کیا حال ہے اور ہماری معیشت کس سمت میں رواں دواں ہے، یہ سب جانتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سب کچھ جان کر ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے ہم کچھ نہیں جانتے اور شاید دوسرے لوگ بھی حالات سے واقف نہیں ہیں۔ بہرحال غیرواضح ناموں کے ساتھ عنوان کا انتخاب کرتے ہوئے راقم الحروف انگریزی محاوروں سے متعلق اپنے علم کو ظاہر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ میں بالکل محفوظ کھیل کھیل رہا ہوں۔ آپ کو بتادوں کے انگریزی کا ایک جانا پہچانا محاورہ ہے: Between the devil and deep sea? یعنی ایسے مشکل حالات جس میں آپ کے دو امکان یا انتخاب رہ جاتے ہیں اور دونوں ناخوشگوار انتخاب ہوتے ہیں۔ اس محاورہ نے فوراً یہ سوال اُٹھایا ہوگا کہ شیطان کون ہے اور گہرا سمندر کونسا ہے؟ ٹیرف کی موجودہ جنگ 2 اپریل 2025ء کو شروع ہوئی اور اس جنگ میں ہمارے وطن عزیز ہندوستان کو دو ممالک امریکہ اور چین سے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک تو غیرواضح Scylla اور دوسرا غیرواضح CHARYBDIS ہے۔ (واضح رہے کہ یہ دونوں یونانی اساطری کہانیوں کے دو طاقتور راکھشیس ہیں جو ملاحوں کیلئے بہت بڑا خطرہ بنتے ہیں۔ Scylla کے 6 سروں والا سمندری راکھشیس ہے جبکہ CHARYBDIS ایک طاقتور بھنور کی شکل میں اپنا کام کرتا ہے، اس طرح یہ دونوں وہاں سے گذرنے والے ملاحوں کیلئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں)۔ ایسے ہی موجودہ تناظر میں امریکہ اور چین ناخوشگوار متبادل ہیں۔
مسئلہ کا ایک رُخ: امریکہ اور چین کے ساتھ 2024-25ء میں ہندوستان کی تجارت کا جہاں تک سوال ہے ، مالی سال2024-25ء میں امریکی برآمدات 86.51 ارب ڈالرس اور چینی برآمدات 14.25 ارب ڈالرس رہی جبکہ دنیا بھر کیلئے برآمدات 437.42 ارب ڈالرس درج کی گئی۔ اب بات کرتے ہیں۔ درآمدات کی مذکورہ مدت میں امریکی درآمدات 45.3 ارب ڈالر ہیں، چینی درآمدات 113.45 ارب ڈالرس اور دنیا سے ہونے والی درآمدات 720.24 ارب ڈالرس رہی۔ اس طرح فاضل خسارہ امریکہ کے معاملے میں +41.21 ارب ڈالرس، چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 99.20، ارب ڈالرس اور دنیا بھر کے ملکوں کے ساتھ تجارت کے معاملے میں 282.82 ارب ڈالرس رہا۔ اس طرح ہندوستان کو دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں سے نمٹنے کے دوران دو متضاد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے پاس تجارتی اکاؤنٹ میں اضافی رقم ہے۔ امریکہ کو ہماری بڑی برآمدات، جواہرات، زیورات، ادویات، انجینئرنگ کے ساز و سامان، الیکٹرانکس اور کچھ زرعی مصنوعات ہیں۔ مسابقتی قیمتوںپر معیاری ادویات کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء وہ سامان یا مصنوعات ہیں جو امریکہ دوسرے ملکوں سے درآمد کرسکتا ہے لیکن برآمد کی ہر شئے لاکھوں ہندوستانی مرد و خواتین کی روزی روٹی یعنی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ تجارتی اکاؤنٹ میں اضافہ کو ٹرمپ کے محاصل یا ٹیرف عائد کرنے کے ادارے سے خطرہ ہے جبکہ ایک توقف ہے اور ادویہ سازی کو عارضی طور پر استثنیٰ حاصل ہے۔ ہندوستان پر محاصل یا ٹیرف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ امریکی مارکٹس میں ہندوستانی مصنوعات کو روکنے سے امریکہ کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یہ اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ درآمدات کی اجازت دینے ایک راہ تلاش کرلیں گے لیکن اس کی ایک قیمت ہوگی۔ امریکہ یہی چاہتا ہے کہ دوسرے ملک بشمول ہندوستان یہ قیمت ادا کرے۔ جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کا سوال ہے، وہ ہندوستان پر زور دیں گے، اصرار کریں گے کہ امریکہ سے زیادہ سے زیادہ خریدی کریں (چاہے وہ مصنوعات ہوں یا سامانِ حربی)۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں جو عدم توازن پایا جاتا ہے، وہ ختم ہوجانے ار باہمی تجارت میں توازن پیدا ہو۔ میرا اندازہ ہے کہ ٹرمپ ہندوستان پر زیادہ سے زیادہ امریکی آلات ِحربی اور جنگی طیاروں کو خریدنے پر زور دیں گے اور ان دونوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ ہندوستان اپنی دیگر ضروریات جیسے آئرن، اسٹیل، نامیاتی کیمیائی اشیاء، پلاسٹکس، معدنیاتی فیولس اور خام تیل اور پٹرولیم کی دیگر مصنوعات دنیا کے دیگر ممالک سے درآمد (اِمپورٹ) کرسکتا ہے لیکن بڑی ہشیاری کے ساتھ امریکی مصنوعات کا انتخاب بھی کرسکتا ہے، لیکن یہاں سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہندوستان حد سے زیادہ قیمتوں والے امریکی جنگی ساز و سامان کی خریدی پر کیسے رقم خرچ کرسکتا ہے، باالفاظ دیگر برداشت کرسکتا ہے( صدر ٹرمپ نے مودی جی کے دورۂ امریکہ کے موقع پر صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہندوستان کو امریکی جنگی طیارے خریدنے ہوں گے، جن کی قیمتیں اربوں ہندوستانی روپیوں میں ہیں) اب تو امریکہ، ہندوستان پر نیوکلیئر ری ایکٹرس خریدنے پر زور دے رہا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹیرف کے معاملے میں دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان کو بھی برا بھلا کہا ہے اور مودی جی نے بناء کسی احتجاج کے امریکی اشتعال انگیزی کو برداشت کیا اور ہوسکتا ہے کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ معاملت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اور دوسرا رُخ: چین کے ساتھ ہندوستان کا مسئلہ امریکہ سے درپیش مسئلہ سے بالکل متضاد بالکل برعکس ہے۔ چین کے ساتھ جہاں تک ہندوستان کے باہمی تجارتی خسارے کا سوال ہے، وہ بہت زیادہ ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چین کے ساتھ ہندوستان کا تجارتی خسارہ 100 ارب ڈالرس تک پہنچ گیا ہے۔ ہندوستان میں ہر طرح چینی مصنوعات کی فروخت جاری ہے۔ (ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی باشندوں کو چینی مصنوعات کی خریدی اور اس کے استعمال کی عادت سی ہوگئی ہے)۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکٹریکل اور الیکٹرانک آلات، مشنری، نامیاتی کیمیائی اشیاء ، پلاسٹکس، آئرن اور اسٹیل کیلئے ہندوستانی صنعت پوری طرح چین پر انحصار کئے ہوئے ہے ار اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چینی مصنوعات کی قیمتیں بہت کم ہوتی ہیں (بعض مرتبہ تو ان کی قیمت اس قدر کم ہوتی ہیں کہ انہیں Dump کردیا جاتا ہے)۔ چینی مصنوعات کی قیمتوں سے مسابقت کیلئے ہندوستان کے پاس بہت کم متبادل ہیں، ساتھ ہی ڈیلیوری ٹائم کے معاملے میں بھی۔ یہی حال ہے جب تک ہندوستان اپنی گھریلو مینوفیکچرنگ شعبہ کو اَپ گریڈ نہیں کرتا، اس میں توسیع نہیں کرتا، تب تک یہ مسئلہ باقی رہے گا۔ جی ڈی پی میں ہماری مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ 13.14% ہے۔ اسی طرح ہندوستان، چین پر منحصر رہے گا۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ چین کو جو ہندوستانی برآمدات ہیں وہ زیادہ تر کنزیومر گڈس، معدنیات، پٹرولیم پر مبنی فیولس، Marine Food، کاٹن یارن اور چند زرعی مصنوعات ہیں، بظاہر کچھ اقدار پر مبنی اشیاء بھی ہیں جنہیں ہندوستان، چین کو برآمد کرسکتا ہے۔ یہ ایسی اشیاء ہیں جن کی پیداوار اپنے ملک میں چینی حکومت نہیں کرسکتی اور نہ ہی ہندوستان کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں سے منگوا سکتی ہے۔ آج تجارتی شعبہ میں خاص کر چین کے ساتھ ہندوستان کا جو تجارتی خسارہ 100 ارب ڈالرس تک پہنچا ہے، اس کیلئے دراصل مودی حکومت ذمہ دار ہے، کیونکہ مودی حکومت نے ہندوستان کے مینوفیکچرنگ شعبہ کو بالکل نظرانداز کردیا ہے، چین تو ہندوستان سے زیادہ مصنوعات اِمپورٹ کرنے کیلئے تیار ہے۔