امریکہ شٹ ڈاؤن دوسرے ماہ میں داخل، عوام کو خوراک کی فکر لاحق

   

وفاقی دفاتر بند، ٹرمپ حکومت عملاً مفلوج، فاکس نیوز کے اہم انکشافات

واشنگٹن۔ یکم؍نومبر (یو این آئی) امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن اپنے دوسرے مہینے میں داخل ہوگیا ہے اور اس کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں، وفاقی ملازمین کے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں، خوراک کی امداد ختم ہو رہی ہے اور لاکھوں امریکی اس بحران کی زد میں ہیں۔ میڈیا کے مطابق یکم اکتوبر کو واشنگٹن کے سیاسی تماشے کے طور پر شروع ہونے والا یہ بحران اب سرکاری خدمات کے زوال اور معاشی ہلچل میں بدل چکا ہے ، وفاقی دفاتر بند ہیں اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔ ری پبلکن رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ اس ہفتہ کے آخر تک لاکھوں لوگ پہلی بار شٹ ڈاؤن کے مکمل اثرات محسوس کریں گے ، کیونکہ صحت کی دیکھ بھال اور فوڈ اسٹیمپس کے لیے فنڈز پر جاری تنازعات انہیں مزید بھوکا اور غریب بنا رہے ہیں۔ ری پبلکن ایوان نمائندگان کے وہپ ٹام ایمر نے فاکس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ زیادہ تر لوگوں نے اب تک فرق محسوس نہیں کیا، پچھلے مہینے ڈونالڈ ٹرمپ نے ہمارے فوجیوں کو تنخواہ دینے کا کوئی راستہ نکال لیا تھا، جس سے تکلیف کچھ دیر کے لیے ٹل گئی تھی، لیکن اس ہفتہ سے ، یہ سب حقیقت بننے لگا ہے ۔ اس تنازعہ کے مرکز میں وہ فنڈز ہیں جو امریکیوں کو صحت بیمہ (جسے عام طور پر اوباما کیئر کہا جاتا ہے ) کیلئے دیے جاتے ہیں۔ یہ سبسیڈیز 2 کروڑ سے زائد افراد کے لیے زندگی کی ضمانت ہیں، اب سال کے اختتام پر ختم ہونے والی ہیں اور اگر کانگریس نے اقدام نہ کیا تو ہفتہ سے شروع ہونے والے نئے اندراجی مرحلے میں پریمیمز میں شدید اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن واشنگٹن میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن جماعتیں ایک بار پھر سخت ضد میں بندھی ہوئی ہیں، ڈیموکریٹس حکومت کو دوبارہ کھولنے سے انکار کر رہے ہیں، جب تک سبسڈی بڑھانے کا معاہدہ نہیں ہوتا، جب کہ ری پبلکن کہتے ہیں کہ جب تک حکومت بحال نہیں ہوتی وہ بات چیت نہیں کریں گے ۔ اس دوران، واشنگٹن کے یہ جھگڑے عام شہریوں کی روزمرہ زندگی میں اثر انداز ہو رہے ہیں اور اب سب سے زیادہ اثر کھانے کی میز پر پڑ رہا ہے ۔ سپلیمنٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام (ایس این اے پی) جو 4 کروڑ 20 لاکھ کم آمدنی والے امریکیوں کو خوراک خریدنے میں مدد دیتا ہے ، اس ہفتہ کے آخر تک فنڈز سے محروم ہونے والا ہے ۔ ڈیموکریٹس نے وائٹ ہاؤس سے 5 ارب ڈالر کے ایمرجنسی فنڈ سے فوڈ اسٹیمپس کیلئے رقم فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، مگر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر وہ اس فنڈ کو استعمال نہیں کر سکتی۔ ایوان کے اسپیکر مائیک جانسن نے کہا کہ ہم اب ٹوٹنے کے مقام پر پہنچ چکے ہیں کیونکہ ڈیموکریٹس نے حکومت کے فنڈز کے حق میں اب تک 14 بار ووٹ دینے سے انکار کیا ہے ، اب آپ کے سامنے حقیقی لوگ، حقیقی خاندان، حتیٰ کہ بچے ہوں گے ، جو اس ہفتہ کے آخر سے بھوک کا سامنا کریں گے ۔ شٹ ڈاؤن کے خاتمہ کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے اور نئی ڈیڈ لائنز تیزی سے قریب آرہی ہیں۔ حاملہ خواتین، نئی ماؤں اور بچوں کیلئے خوراک کی امداد کا پروگرام بھی خطرے میں ہے ، جب کہ 65 ہزار نوزائیدہ بچوں کیلئے غذائی اور خاندانی معاونت کے پروگرام ہفتہ سے بند ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے فوجی اہلکاروں کی تنخواہوں کیلئے وقتی بندوبست کر لیا ہے ، لیکن وسط نومبر تک وہ بھی تنخواہوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ تقریباً 6 لاکھ 70 ہزار وفاقی ملازمین کو بغیر تنخواہ کے گھروں پر بھیج دیا گیا ہے ، جب کہ 7لاکھ 30 ہزار دیگر (جن میں پارک رینجرز سے لے کر ایئر ٹریفک کنٹرولرز تک شامل ہیں) بغیر معاوضے کے کام کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر کو اس ہفتہ اپنی پہلی مکمل تنخواہ نہیں ملی۔ ملک کی سب سے بڑی وفاقی ملازمین کی یونین اے ایف جی ای نے کانگریس سے عارضی بل پاس کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ تنخواہوں کی ادائیگی دوبارہ شروع ہو سکے ۔ مگر یہ معاملہ بھی سیاسی دلدل میں پھنس گیا ہے ، کیونکہ ڈیموکریٹس اپنے موقف پر قائم ہیں۔