پی چدمبرم، سابق مرکزی وزیر داخلہ
ریک جاوک کے مشرق میں 48 کلو میٹر آئس لینڈ کی پارلیمنٹ ہے ، اس پارلیمنٹ کو دنیا کی سب سے قدیم ترین پارلیمنٹ سمجھا جاتا ہے جس کے قیام سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ 930 میں قائم کی گئی۔ آئس لینڈ ایک دولت مند ملک ہے لیکن وہاں بہت سادگی پائی جاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک جمہوری مملکت ہے۔ ہاں …! تو آپ کو بتادیں کہ جن ملکوں میں پارلیمنٹ ہوتی ہے ضروری نہیں کہ وہاں جمہوریت کا دور دورہ ہو یعنی وہ جمہوری ملک ہو، اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ بے شمار ایسے ملک ہیں جہاں پارلیمنٹ تو ہے لیکن جمہوریت نہیں۔
انڈیا میں ایک پارلیمنٹ ہے لیکن حالیہ برسوں میں ایسے متعدد سوالات پیدا ہورہے ہیں کہ آیا انڈیا حقیقت میں ایک جمہوری ملک ؟ ایک حقیقی جمہوریہ ہے؟ چنانچہ حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم نے امریکہ کا دورہ کیا وہاں ہمیں ان کی زبان سے یہ سننے کا موقع ملا کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے۔ انڈیا کس قدر مضبوط و مستحکم جمہوری ملک ہے اس کا اندازہ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے وزیر اعظم نے جو خطاب کیا اُس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب میں لفظ ’’ جمہوریت ‘‘ ایک نہیں دو نہیں بلکہ 14 مرتبہ استعمال کیا۔ مختلف خبروں اور میڈیا رپورٹس میں بتایا گیاکہ انڈیا میں اقلیتوں کے حقوق اور آزادی اظہار خیال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا ہمارے وزیر اعظم ٹھیک ٹھیک جواب نہ دے سکے۔ وائٹ ہاوس میں وال اسٹریٹ کی خاتون صحافی کا سوال ایسا لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم کو پریشان کرگیا۔ محترمہ سبرینا صدیقی وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر ہیں اور وہ خوش قسمت رہیں کہ انہیں نریندر مودی سے ایک ایک ایسا سوال پوچھنے کی اجازت دی گئی جو گذشتہ 9 برسوں سے انڈیا میں کسی صحافی کو پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔
بہرحال سبرینا صدیقی کے سوال پر وزیر اعظم نے جواب دیا وہ بڑا طویل جواب تھا( جس کا ترجمہ بھی پیش کیا گیا ) ان کے جواب میں ایک اور بات بہت دلچسپ تھی اس میں بھی انہوں نے لفظ ’’ جمہوریت ‘‘ کا کئی مرتبہ ( کم از کم 7 مرتبہ ) استعمال کیا۔ سبرینا کا سوال کچھ یوں تھا ’’ انڈیا نے ایک طویل عرصہ سے اپنے آپ پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے فخر کیا ہے لیکن حقوق انسانی کے تحفظ میں مصروف ایسے بہت سے گروپ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ آپکی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا ہے اور ناقدین کو خاموش کروانے کی کوشش کی ہے، جب آپ یہاں وائٹ ہاوس کے ایسٹ روم میں کھڑے ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں سے کئی عالمی رہنماؤں نے جمہوریت کے تحفظ کیلئے اپنے عزم اور جمہوریت کے تئیں اپنے پابند ہونے کا اظہار کیا ہے تو آپ اور آپ کی حکومت انڈیا میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق بہتر بنانے اور اظہار خیال کی آزادی کو بنائے رکھنے کیلئے کیا قدم اٹھانے والے ہیں‘‘ اس سوال پر مودی جی نے کچھ اس طرح جواب دیا ’’ مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس طرح کہتے ہیں ، لوگ کچھ بھی کہہ لیں انڈیا ایک جمہوریت ہے اور حقیقت یہی ہے۔ جمہوریت ہماری روح ہے اور جمہوریت ہماری رگوں میں دوڑتی ہے‘‘ ہم جمہوریت میں رہتے ہیں، ہماری حکومت نے جمہوریت کے بنیادی اُصولوں کو اپنایا ہے، ہمارے ملک میں تفریق اور امتیازی سلوک کیلئے بالکل بھی جگہ نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ انڈیا میں 203 ملین مسلمان آباد ہیں( جو جملہ آبادی کا 14.2 فیصد حصہ بنتا ہے) اسی طرح 33 ملین عیسائی ( جملہ آبادی کا 2.3 فیصد حصہ ) ہمارے ملک میں مقیم ہیں۔ جہاں تک سکھوں کی آبادی کا سوال ہے ان کی آبادی 24ملین ( جملہ آبادی کا 1.7 فیصد حصہ ) ہے ۔ دوسری طرف ملک میں کئی اور مذہبی و لسانی اقلیتیں پائی جاتی ہیں کیا ان تمام کے ساتھ انڈیا میں امتیاز برتاجارہا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جو ان سے پوچھا جانا ضروری ہے۔ ذیل میں راقم الحروف چند حقائق پیش کررہا ہے جو یقینا آپ کو مذکورہ سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد دیں گے۔
مذہبی امتیاز :… مرکزی وزارت میں 79 وزراء کو شامل کیا گیا ہے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 79 رکنی مرکزی مجلس وزراء میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے جبکہ صرف ایک عیسائی اور ایک سکھ کو وزارت میں شامل کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ ( لوک سبھا اور راجیہ سبھا ) میں بی جے پی کے 395 ارکان پارلیمنٹ ہیں ان میں بھی ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں چاہے وہ لوک سبھا ہو یا راجیہ سبھا بی جے پی نے کسی مسلم کو رکن نہیں بنایا۔
٭ آپ کو بتادیں کہ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے صرف اور صرف 6 مسلم امیدواروں کو میدان میں اُتارا تھا۔ جموں و کشمیر سے تین، مغربی بنگال سے 2 اور لکشا دیپ سے ایک، ایک مسلم قائد کو ٹکٹس دیئے گئے تھے۔
٭ لوک سبھا میں مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تعداد صرف 4.62 فیصد بنتی ہے جبکہ وہ جملہ آبادی کا 14.2 فیصد ہیں۔
٭ اُتر پردیش جو ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے وہاں کے پچھلے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار مقابلہ میں نہیں اُتارا حالانکہ یو پی میں 403 اسمبلی نشستیں ہیں۔ اس طرح گجرات کی 182، کرناٹک کی 224 اسمبلی نشستوں میں بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو انتخابی مقابلہ میں اُتارنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی نے مسلمانوں کو بری طرح نظرانداز کردیا۔
٭ اب چلتے ہیں سپریم کورٹ، عدالت عظمیٰ میں 34 ججس ہیں فی الوقت صرف ایک مسلم، ایک پارسی جج ہے جبکہ کوئی عیسائی اور سکھ جج نہیں ہے، کہا یہ جارہاہے کہ بس ایک کافی ہے۔
٭ مئی2019 میں جموں کشمیر کو جو انڈیا کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے اسے تقسیم کرکے مرکزی زیر انتظام علاقہ تک محدود کردیا گیا۔
٭ حکومت نے شہریت ترمیمی قانون CAA منظور کیا۔ اس کے تحت پڑوسی ملکوں سے آنے والی اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔ افسوس صد افسوس کہ ان اقلیتوں میں صرف مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس قانون میں نیپال سے آنے والے بدھسٹوں و عیسائیوں اور سری لنکا و میانمار سے ہجرت کرنے والے کسی بھی مذہب کے لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
٭ سارے ملک میں حجاب، حلال، اذان، سرکاری اراضیات، کھلے میدانوں وغیرہ پر مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر تنازعات پیدا کئے گئے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں نے خاص طور پر کرناٹک اسمبلی انتخابات کے موقع پر ان تنازعات کو نہ صرف چھیڑا بلکہ انہیں بھڑکایا۔
٭ تحفظ گاؤ اور لو جہاد کی مہمات بی جے پی کی تائید و حمایت سے چلائی گئیں اور ان کے ذریعہ مسلم ڈیری مالکین و تاجرین کے ساتھ مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا۔
٭ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2012 اور 2021 کے درمیان مذہبی اقلیتوں کے مابین تشدد کے 2900 واقعات پیش آئے، 2010 اور 2017 ( 24 مسلمان تھے ) لیکن 2017 سے NCRB نے اس طرح کے واقعات سے متعلق تفصیلات جمع کرنا روک دیا۔
٭ ’ آؤٹ لُک‘ ( 13 مارچ 2023 ) کی خصوصی رپورٹ میں بتاتا ہے کہ عیسائیوں کو انڈیا میں ان کے مذہب و عقائد کیلئے حملوں کا سامنا ہے، ان کے اجتماعات ان کی عبادت گاہوں (گرجا گھروں ) اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
٭ عالمی مذہبی آزادی سے متعلق امریکہ کی خصوصی رپورٹ برائے سال2022 ( 15 مئی 2023 ) میں واضح طور پر کہا گیا کہ انڈیا میں مذہبی آزادی ابتر ہوگئی ہے۔ 49 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ایسے واقعات کی مثالیں پیش کی گئیں جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور حملے کئے گئے۔
٭ ناروے کے دی ۔ ڈیام انسٹی ٹیوٹ کے انتخابی جمہوریت سے متعلق اشارہ میں انکشاف کیا گیا کہ 2001 معاملہ میں انڈیاکا درجہ 100 سے گر کر 2023 میں 108 ہوگیا۔ امریکہ سے کام کرنے والے فریڈم ہاوس نے اپنی عالمی رپورٹ میں ہندوستان کو جزوی آزاد قرار دے کر اس کا رتبہ گھٹادیا۔ اس کا کہنا تھا کہ انڈیا میں جزوی جمہوریت پائی جاتی ہے۔
اظہار خیال کی آزادی پر : ڈسمبر 2022 میں 7 صحافی جیل میں تھے ان میں سے 5 مسلم صحافی ہیںیہ اور بات ہے کہ 14 ماہ قید میں رکھنے کے بعد ایک صحافی ( مسٹر منان دار ) کو اور دو سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد ( صدیق کپن ) کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔
٭ حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم اور چیف منسٹروں پر تنقید کرنے والے لوگوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ مثال کے طور پر ان لوگوں کی گرفتاری ہمارے سامنے ہے جنہوں نے ایک ہورڈنگ نصب کروائی تھی جس میں مسٹر مودی کو گیاس سلینڈر 1105 روپئے میں دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
٭ فیاکٹ چیکنگ ویب سائیٹ AltNews کے شریک بانی محمد زبیر کو ایک شخص کی شکایت پر گرفتار کیا گیا جس نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ محمد زبیر نے بعض ہندو پنڈتوں کو نفرت پھیلانے والے کہا جس سے اس کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے، اس کے علاوہ ان کے پرانے ٹوئیٹس کو لیکر مزید الزامات کا اضافہ کیا گیا لیکن بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے تمام مقدمات مستقبل کے ایف آئی آر س میں محمد زبیر کو ضمانت دے دی۔
٭ ایک عالمی سطح کی ڈیجیٹل آرگنائزریشن Access Now کے مطابق دنیا نے 2022 میں انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کے 187 واقعات کا مشاہدہ کیا جن میں 84 واقعات انڈیا میں پیش آئے۔
٭ ورلڈ پریس فریڈم انڈکس 2023 میں ہندوستان کارینک 450 ملکوں میں 161 تھا۔ میری خواہش ہے کہ وزیر اعظم انڈیا میں مذہبی امتیاز اور آزادیٔ اظہار خیال سے متعلق صحافیوں کے سوالات کے جواب دیں ۔