روش کمار
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کب کیا کہہ دیں، کب کیا کرجائیں، یہ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ کوئی یہ بھی بتا نہیں سکتا کہ ٹرمپ کب کس سے دوستی کرلیں، کب کس کو اپنا دشمن بنالیں؟ اس معاملے میں دنیا کے سب سے دولت مند شخص ایلون مسک اور ڈونالڈ ٹرمپ کی دوستی اور پھر دشمنی بہترین مثال ہے۔ ان دونوں کی گہری دوستی اور بھر دشمنی کو دیکھتے ہوئے دوسروں کو سنبھل جانا چاہئے، ورنہ ٹرمپ، ایلون مسک کی طرح دوسروں کو بھی امریکہ سے نکالنے کی دھمکی دے سکتے ہیں۔ جس طرح انہوں نے ایلون مسک کو ان کے پیدائشی ملک جنوبی آفریقہ بھیج دینے کی دھمکی دی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ٹیسلا کے بانی ایلون مسک کو امریکی صدر نے امریکہ سے نکالنے کی دھمکی ہے۔ امریکی حکومت سے مسک کو کتنی سبسڈی ملی ہے ، اس کا بھی حساب نکالا جائے گا۔ مسک اور ٹرمپ کی اس لفطی جنگ میں دو دوستوں کے جھگڑے میں اپنے ہاتھ سیکنے والوں کی طرح سب لوٹ رہے ہیں تو لوٹ لیجئے، کیونکہ آپ کی زندگی میں امنگ پیدا کرنے کیلئے کچھ ہے نہیں، مذہب کی سیاست نے نفرت کی ساری سرحدوں کو پار کرلیا، روزگار کا وعدہ بھی ہندوستانیوں کو ٹھنڈا کردیتا ہے کہ بھر سے وہی جھوٹ دہرایا جاتا ہے تو کیا مسک اور ٹرمپ کی لڑائی کو صرف چٹخارے کیلئے دیکھا جائے یا اس کے پیچھے جو سوچ و فکر کے سوال ہیں، انہیں بھی دیکھ لیا جائے۔ ہندوستان میں بھی حکومت پر الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں کہ حکومت کی پالیسیاں اور پروگرامس ان لوگوں کیلئے بنتے ہیں اور یہی حکومت بھی چلاتے ہیں، ان الزامات کے تناظر میں آپ نے امبانی اور اڈانی کے نام کئی بار سنے ہوں گے، لیکن ہندوستان میں ان دونوں نے مودی حکومت کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا۔ ایسے واقعات اور تبدیلیوں پر بھی نہیں جس پر کہنے کی ضرورت تھی۔ جب بھی کچھ کہا، حکومت کی تائید و حمایت میں ہی کہا۔ ہندوستان میں 2014ء کے بعد سے صنعت کاروں و ارب پتیوں کی آواز بند ہوگئی مگر ان کا اثر و رسوخ حکومت میں کئی گنا بڑھ گیا۔ اس کا اندازہ تمام میڈیا رپورٹ اور اپوزیشن کے اٹھائے گئے سوالات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی لئے ایلون مسک اور ٹرمپ کی لڑائی کے چرچے ہمارے ملک میں بھی ہوسکتے ہیں کہ اتنا اثر و رسوخ رکھنے والے صنعت کار و ارب پتی حکومت کی کسی پالیسی یا پروگرام کے بارے میں اپنا منہ کیوں نہیں کھولتے، کچھ بھی نہیں بولتے جس سے انجانے میں بھی حکومت کی مذمت یا اس پر تنقید ہوجائے۔ آرام سے بات کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو امریکہ میں ہورہا ہے اگر ہندوستان میں ہوتا تو کیا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں کوئی صنعت کار یا ارب پتی وزیراعظم نریندر مودی کی غلط پالیسیوں کو چیلنج کررہا ہوتا اور وزیراعظم بھی ان پالیسیوں کا دفاع کررہے ہوتے، کیا ایسا ہوتا؟ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ صنعت کار یا ارب پتی کے بولتے ہی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ED) کی ٹیم اُسے دبوچ لیتی اور ان کی حالت خراب ہوجاتی، ہمت جواب دے جاتی۔ مسک اور ٹرمپ کی لڑائی کو دیکھنے کیلئے عینک کا نمبر بڑھانا ہوگا۔ آنکھیں ٹھیک ہیں تب بھی Magnifying گلاس سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف جھگڑا ہے یا کچھ اور ہے۔ مسک ارب پتی تو ہیں، دنیا کے ان چند ایک ارب پتیوں میں سے ہیں جن کے پاس کئی ملکوں کی قومی مجموعی پیداوار کے مساوی دولت ہے اور اس چھوٹے سے کلب میں بھی ایلون مسک گنتی کے ان ارب پتیوں میں آتے ہیں جنہیں Monopolist کہا جاتا ہے جن کا اثر سیاست سے لے کر حکومت کی پالیسیوں پر سیدھا ہوتا ہے تو اب ٹرمپ اور مسک کی لڑائی کو کیسے دیکھا جائے۔ نومبر میں جب صدارتی انتخاب ہورہا تھا تب مسک، ٹرمپ کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے۔ ان کی پالیسیوں اور پروگرامس کی تشہیر کی سوشیل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر دونوں ایک ساتھ لائیو بات چیت کرتے نظر آئے۔ 300 ملین ڈالرس (2600 کروڑ روپئے) کا چندہ ٹرمپ کو دیا۔ مسک صرف پیسہ نہیں دے رہے تھے بلکہ ٹرمپ کی سیاست کی تائید و حمایت کررہے تھے۔ ٹرمپ اقتدار میں آئیں گے اور پالیسیاں ارب پتیوں کے کلب کیلئے نہیں بنے گی بلکہ عوام کیلئے بنائی جائیں گی۔ لیکن وہی عوام وعدوں کی آندھی میں دیکھنا بھول گئی کہ ٹرمپ انتخابی مہم کس کے پیسے سے لڑرہے ہیں؟ جب انتخابی مہم میں ارب پتی کھل کر آئیں گے تو حکومت میں چھپ کر کیوں کام کروائیں گے۔ اقتدار میں ٹرمپ کے آتے ہی وائیٹ ہاؤز میں ایلون مسک کا آنا جانا اس طرح بڑھ گیا کہ لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ مسک بھی صدر کی طرح بااثر اور طاقتور بلکہ بااختیار ہوگئے ہیں۔ وہ ہر کسی کو لے کر وائیٹ ہاؤز میں آنے لگے ٹرمپ بھی مسک کے بیٹے ایکس پر محبت نچھاور کرنے لگے۔ ایکس بھی اسٹیج پر گھومتا ٹہلتا رہا لیکن اب سب کچھ واقعی میں Ex ہوگیا۔ ایکس ٹوئٹر کا نیا نام ہے لیکن یہاں میں اس ایکس کی بات کررہا ہوں جو پرانا پڑگیا ہے جسے چھوڑا جاچکا ہے۔ ایکس کے مالک ایلون مسک ٹرمپ کیلئے لگتا ہے، ایکس ہونے جارہے ہیں، باقی بچ گئے، وائی اور زیڈ جو اس مسئلہ پر ریڈیو بنا رہے ہیں کہ ایکس کے اچھے دن نہیں آئے تو ایکس نئی پارٹی بنانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایک چیز کا خیال رکھنا چاہئے کہ مسک یقینا ارب پتی تاجر و صنعت کار ہیں اور ٹرمپ بھی اتنے ہی بااثر ارب پتی تاجر و صنعت کار ہیں جو سیاست داں بھی ہیں۔ مسک بھی بزنس میں پیسہ کمانے کے بعد سیاست میں داخل ہونا چاہتے ہیں لیکن ٹرمپ، مسک سے سینئر ہیں۔ ان سے پہلے یہ کام وہ کرچکے ہیں اور دو بار صدر بھی بن چکے ہیں۔ ٹرمپ کا کاروبار کافی پھیلا ہوا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سے لے کر ہوٹل تک پتہ نہیں کیا ہے۔ اب مسک دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اگلے انتخابات میں تیسری پارٹی بنالیں گے۔ دنیا بھر میں جن کے پاس بھی دولت ہے، وہ اب پارٹی بنارہے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں بھی لوگ نئی پارٹی بناکر سپنے فروخت کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں کسی ارب پتی کی یہ اوقات نہیں کہ وہ نئی سیاسی پارٹی بنانے کی بات کھلے عام کردے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے دفتر سے خالی لفافہ چلا آئے گا تو حالت خراب ہوجائے گی تو یہ لڑائی دو سیاسی جماعتوں یا دو سیاسی لیڈروں میں نہیں ہورہی ہے۔ دو صنعت کاروں، دو دولت مندوں میں ہورہی ہے جو سیاست کو اپنی جیب میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے باوجود بھی ٹرمپ سینٹ بیچ رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ مردوں کیلئے الگ اور عورتوں کیلئے الگ پرفیوم یہ مت سمجھئے گا کہ اس طرح کے کاروباری نہ صرف اقتدار چاہتے ہیں، کاروں اور ہوائی جہاز کے بزنس میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ موقع ملے تو یہ لوگ غباروں سے لے کر فون تک تمام کاروباروں پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں ساتھ میں اقتدار بھی آگے کریں گے بھی اس کیلئے ضروری ہے کہ گلی کے کونے پر جو تاجر بیٹھا ہے، اسے اس طرح کے تماشہ میں الجھا کر ختم کردیا جائے۔ اتنا بتانا ضروری تھا تاکہ ہم اور آپ مسک اور ٹرمپ کے درمیان بزنس مین اور سیاسی طاقت و اہمیت کو ٹھیک سے جان لیں مسک بھی انتخابات میں غیرقانونی تارکین وطن کو امریکہ سے نکالنے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ بہت ٹوئٹ کرتے تھے، اس وقت بھی ان کے مائیگرنٹ ہونے کی بات اُٹھی تھی، سوال اٹھے تھے، لیکن ٹرمپ کی لہر چل رہی تھی۔ آندھی کو عوام دیکھنا سننا نہیں چاہتے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ بس ٹرمپ آجائیں اچھے دن تو خود ہی آجائیں گے۔ بتایئے، مسک کے پاس کیا نہیں ہیں، بڑی بڑی عمارتیں ہیں، گاڑیاں ہیں، کارساز کمپنی ہے، خلا میں خلائی گاڑیاں بھیجنے کا سامان ہے، بنگلہ ہے، پیسہ ہے، اس کے بعد بھی ٹرمپ نے کہہ دیا کہ لگتا ہے کہ ان کو امریکہ سے باہر نکلوانا پڑے گا۔ ہوگا کچھ نہیں لیکن اتنی بحث تو ہوگئی امریکہ میں ابھی بھی صدر کے خلاف بولا جاسکتا ہے جبکہ یہ بھی ایک وہم ہوسکتا ہے۔ آپ کو پتہ نہیں کہ ویزا کے نام پر کتنے لوگوں نے امریکہ میں بولنا بند کردیا ہے، یہ کہانی صرف امریکہ کی نہیں ہے اور اس کہانی میں جو حالت بن رہی ہے، وہ صرف آپ کی نہیں ہے، ٹرمپ نے مسک کو لے کر جو دوسری باتیں کہی ہیں، وہ بہت ضروری ہیں، کون سی بات! سبسڈی والی بات ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایلون مسک کو تاریخ میں کسی سے بھی زیادہ سبسڈی ملی ہے۔ اگر یہ سبسڈی انہیں ملتی تو اپنی دکان بند کرکے جنوبی آفریقہ اپنے گھر واپس ہوجانا پڑتا۔ نہ تو کوئی راکٹ چھوڑ پاتے، نہ خلائی گاڑی، نہ الیکٹرانک کار تیار کرپاتے، سب بند ہوجاتا، اور ہمارے ملک کا کافی سارا پیسہ بھی بچ جاتا۔ لگتا ہے کہ ہمیں ان سب کا حساب لگانا ہوگا۔ کافی سارا پیسہ بچانے کی ضرورت ہے۔ مسک نے بھی الٹا وار کرتے ہوئے جواب دے دیا کہ ساری سبسڈی بند کردیجئے لیکن یہ کوئی جواب نہیں ہوا۔ مسک کو مسک بننے میں امریکہ کی سبسڈی کا کتنا کردار ہے یہ تو آپ کو جاننا ہی چاہئے۔ سب ہی صنعت کاروں کے بارے میں جاننا چاہئے۔ ہندوستان کے صنعت کاروں کے بارے میں بھی جاننا چاہئے اگر یہ حساب ٹرمپ اور مسک کے جھگڑے میں نکل کر آجائے تو سب کیلئے بہتر ہے کیونکہ نا ساکو کمزور کرکے ایک پرائیویٹ سیکٹر کو موقع فراہم کیا گیا پتہ چل جائے گا۔ مسک کو کتنی سبسڈی ملی ہے اگر اس کا حساب نکلے تو باقی صنعت کاروں کا بھی نکلے گا تب آپ کا یہ وہم ختم ہوجائے گا کہ کارپوریٹ کھلے بازار میں صرف اپنے اثرو رسوخ کے دَم پر فروغ پاتا ہے۔ آپ کو جاننا چاہئے کہ کارپوریٹ کے بہت سارے ہیرو کی دکان آپ کے عوام کے پیسے کی سبسڈی سے چلتی ہے۔ بس آپ عوام کو پتہ نہیں چلتا۔ جب دیکھئے مسک ۔ ٹرمپ کی باتیں کرتے کرتے ہندوستان کی بات ضروری ہوگئی۔ ہندوستان کا زاویہ سمجھ لیں گے تو ٹرمپ اور مسک کے جھگڑے میں چٹخارے کا لطف تھوڑا km ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2019ء میں مودی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس اچانک 30% سے کم کرکے 22% کردیا۔ عوام سے کہا گیا کہ کارپوریٹ کے پاس پیسہ بچے گا، پیداوار بڑھے گی اور نوکریاں بڑھ جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ کارپوریٹ گھرانوں کا منافع تو خوب بڑھا ٹیکس بھی بچ گیا۔