امریکہ میں مہاتما مودی کا جمہوریت پر درس

   

محمد ریاض احمد
’’ مجھے حیرت ہورہی ہے جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں ، لوگ کہتے نہیں بلکہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور جیسے صدر جوبائیڈن نے کہا کہ بھارت اور امریکہ کے ڈی این اے میں جمہوریت ہے۔ جمہوریت ہماری روح ہے، جمہوریت ہماری رگوں میں بسی ہے، جمہوریت سے ہم جیتے ہیں، ہمارے بزرگوں نے اسے الفاظ میں ڈھال کر دستور کی شکل میں دنیا کے سامنے لایا ہے۔ ہماری حکومت دستور پر چلتی ہے، ہمارا دستور اور ہماری حکومت جمہوریت کی بنیاد پر بنے ہیں، ہم جمہوریت اور جمہوری اُصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ ذات پات، عقیدہ، مذہب، صنف کی بنیاد پر امتیاز کی بھارت میں کوئی جگہ نہیں ہے اور جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تب دیگر انسانی اقدار نہیں ہیں، انسانیت نہیں ہے، انسانی حقوق نہیں ہیں تو پھر وہ جمہوریت ہے ہی نہیں اور جب آپ جمہوریت کا نام لیتے ہیں ، جمہوریت کہتے ہیں، جب جمہوریت کو قبول کرتے ہیں اور جب جمہوریت کو لیکر جیتے ہیں تب امتیاز یا بھید بھاؤ کا کوئی سوال ہی نہیں اُٹھتا، اسی لئے بھارت سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ ان اُصولوں کو لیکر چلتا ہے اور یہی ہمارے بنیادی اُصول ہیں‘‘۔
قارئین ! ہمارے وطنِ عزیز میں گذشتہ 9 برسوں سے جمہوریت کا حال کس قدر ابتر ہے اس کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن ہم نے سطورِ بالا میں جمہوریت کی اہمیت، اس کے استحکام، ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیساتھ مساویانہ سلوک، سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس‘ سے متعلق جو سنہرے جملے پیش کئے ہیں وہ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ، مولانا ابوالکلام آزاد، ہندوستان کے میزائل میان ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام مرحوم کے زرین اقوال یا امیر خسرو کی پہیلیاں اور کبیر کے دوہے نہیں بلکہ ہمارے عزت مآب وزیر اعظم شری نریندر مودی کا وہ جواب ہے جو انہوں نے امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک امریکی صحافی کے سوال پر دیا۔ امریکی صحافی نے ان سے سوال کیا تھا کہ انڈیا میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے وہ کیا اقدامات کریں گے؟
مودی جی نے جمہوریت سے متعلق جو خیالات ظاہر کئے ہیں اس کے بعد تو ان لوگوں کو یقینا شرم آئی ہوگی جو اپنے ٹرکس نیویارک کی سڑکوں پر دوڑا رہے تھے جن پر مودی جی کی طرف اشارہ کرتے ہوئےCrime minister لکھا گیا تھا۔ اسی طرح بعض ٹرکس پر صدر جوبائیڈن سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ مسٹر مودی سے پوچھیں کہ آخر 2005 سے 2014 تک امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں ان کی آمد پر پابندی کیوں عائد کی گئی تھی؟ انہیں ویزے کیوں جاری نہیں کئے گئے تھے۔۔ جمہوریت پر مہاتما نریندر بھائی دامودر داس مودی نے جس طرح امریکہ میں بصیرت افروز جواب دیا اس سے تو ان لوگوں کو ضرور شرم آئی ہوگی اور وہ حیرت زدہ بلکہ ہکا بکا رہ گئے ہوں گے جنہوں نے اپنے ٹرک پر اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد کی تصویر کے ساتھ صدر جوبائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مودی جی سے پوچھیں کہ آخر عمر خالد کو1000 دن سے زائد عرصہ سے مقدمہ چلائے بناء جیل میں کیوں بند رکھا گیا؟ عمر خالدنے جیل میں1015 دن گذار دیئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے تحریک آزادی کے دوران مسلسل 1041 دنوں تک انگریزوں کی قید میں رہنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا، اب عمر خالد مودی حکومت کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے آئندہ 27 دنوں میں پنڈت جواہر لال نہرو کا بھی ریکارڈ توڑ کر آزاد ہند کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کریں گے ) بہر حال ہم جمہوریت، انسانیت، انسانی حقوق، انصاف، غیر جانبداری، رواداری، سب کے ساتھ یکساں سلوک پر مہاتما نریندر بھائی دامودر داس مودی کے زرین خیالات پر بات کررہے تھے۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مودی جی کو جمہوریت کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سن کر بی جے پی قائدین کارکنوں کے ساتھ ساتھ آر ایس اور اس کی تمام ذیلی تنظیمیں بھی حیرت میں غرق ہوگئے ہوں گے کہ مودی جی کو آخر کیا ہوگیا ہے، وہ کیسی کیسی ( مودی کے مخالفین اسے بہکی بہکی باتیں کہیں گے ) باتیں کررہے ہیں۔ کیا امریکہ میں مہاتما مودی نے ہندوستان میں جمہوریت کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کی اور اس میں رتی برابر شک نہیں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا بھی ہمارے وطنِ عزیز کو اعزاز حاصل ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ گذشتہ دہے سے یہاں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا۔ مودی جی‘ امیت شاہ جی سے لیکر سارا ملک جانتا ہے کہ ملک کی کم از کم8 ریاستوں میں منتخبہ حکومتوں کو کس طرح زوال سے دوچار کرکے بی جے پی کو اقتدار پر لایا گیا۔
مودی جی نے سچ ہی کہا جمہوریت ہندوستان کی رگوں میں بسی ہے تاہم جمہوں و کشمیر میں جو کچھ ہوا اور حلقوں کی نئی حد بندی کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے، منی پور جس طرح جل رہا ہے، تقریباً 50 دن سے وہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ سو سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں، اموات کی تعداد سے کہیں زیادہ گرجا گھروں کو جلا کر خاکستر کردیا گیا۔ مہاتما مودی نے امریکی صدر کے ساتھ پریس کانفرنس میں جمہوریت پر ایک طرح سے درس دیا ہے جبکہ راہول گاندھی کے بشمول کئی سیاستدانوں کو مختلف بہانوں سے پارلیمنٹ اور اسمبلی کی رکنیت کیلئے نااہل قرار دیا گیا ۔
مودی جی نے جمہوریت، انسانی اقدار، انسانی حقوق کے بارے میں غیر معمولی خیالات ظاہر کئے لیکن آج بھی ملک کی جیلوں میں حقوق انسانی کے بے شمار جہد کار، مسلم نوجوان، حکومت کے ناقدین اور صحافی جیلوں میں بند ہیں۔ کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن اور طلباء لیڈران اس کی بدترین مثال ہے۔ اپوزیشن قائدین خاص کر راہول گاندھی اور شردپوار سے لیکر اروند کجریوال سے پوچھیں وہ بتائیں گے کہ کس طرح ملک کے سیکولر جمہوری اور وفاقی ڈھانچے کو کمزور کیا جارہا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو ناراض عناصر اور اپوزیشن کے خلاف کھلونے کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ مودی جی امریکہ میں بڑے زور و شور سے کہتے ہیں کہ ملک میں کسی کے ساتھ بھی امتیازی سلوک روا رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر انہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا، ان سنگین جرائم میں ملوث کتنے درندوں کو سزائیں ہوئیں، کتنے شہداء کے لواحقین کو مرکزی اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے معاوضے دیئے۔ کیا اس کا جواب مہاتما مودی دے سکتے ہیں۔ مودی جی مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتنے کی تردید کرتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کیا ہے جس میں صرف مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، کیا یہ امتیاز نہیں ہے۔ اُتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف احتجاج پر تقریباً 29 مسلم نوجوانوں کے سینوں، سر اور پیٹھوں میں گولیاں ماردی گئیں، مسلمانوں کے درجنوں گھروں پر بلڈوزر چلادیئے گئے، مساجد اور مدرسوں کو شہید کیا گیا، کیا یہ امتیازی سلوک نہیں ہے؟۔ جان بوجھ کر طلاقِ ثلاثہ کو جرم قرار دینے والا قانون منظور کروایا گیا، اب یونیفارم سیول کوڈ کی باتیں ہورہی ہیں، کیا یہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہے۔ اقلیتی طلبہ کی اسکالر شپ حتم کردی گئی۔ حجاب کے نام پر مسلم طالبات کو ترک تعلیم پر مجبور کیا گیا، لو جہاد ، لینڈجہاد، یو پی ایس سی جہاد، معاشی جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی گئی۔ کیا یہ ہمارے ملک کی رگوں میں دوڑ رہی جمہوریت ہے؟ سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے؟ مودی جی جمہوریت کی بات کرتے ہیں، لوک سبھا میں بی جے پی کے 301 اور راجیہ سبھا میں 93 ارکان ہیں ان میں ایک بھی مسلمان نہیں۔ ملک کے4036 ارکان اسمبلی ہیں، 1363 بی جے پی ایم ایل اے ہیں ان میں صرف دوچار مسلمان ہیں۔ یو پی ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے بی جے پی کے 255 ارکان ہیں ان میں بھی کوئی مسلمان نہیں، کیا یہی جمہوریت ہے جو ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے۔ بہرحال مودی جی کو یہ جان لینا چاہیئے کہ صرف سُرخ قالین (استقبال ) وائیٹ ہاوز میں ریاستی ڈنر، امریکی صدر سے دو گھنٹے بات چیت ، امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب، مشہور و معروف کمپنیوں کے سی ای اوز سے ملاقاتوں سے ہندوستان اور ہندوستانیوں کی عزت نہیں بڑھتی بلکہ حقیقی جمہوریت، سیکولرازم، انسانیت، انسانی اقدار و انسانی حقوق سے ہندوستان اور ہندوستان کی عزت بڑھتی ہے اور ہاں9 برسوں میں 67 سے زیادہ ملکوں کے 100 سے زائد دورے کرلیں تب بھی فائدہ نہیں ہوگا، فائدہ تب ہوگا جب آپ تمام ہندوستانیوں کو لیکر چلیں گے۔
[email protected]