واشنگٹن 19جولائی (یو این آئی) ایوارڈ یافتہ امریکی صحافی سیمئور ہرش نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو ممکنہ طور پر جبراً ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔روسی میڈیا کے مطابق سیمئور ہرش کا کہنا ہے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا تو انہیں زبردستی ہٹادیا جائے گا اور توقع بھی یہی کی جارہی ہے کہ زیلنسکی خود مستعفی نہیں ہوں گے ۔صحافی کے مطابق یوکرینی فوج کے سابق کمانڈر ان چیف اور اس وقت برطانیہ میں یوکرین کے سفیر ویلیئری زالزنی ، زیلنسکی کے ممکنہ متبادل ہوں گے اور یہ تبدیلی چند ماہ میں عمل میں لائی جائے گی۔برطانیہ میں یوکرین کے سابق سفیر وادیم پریستائیکو نے صدر زیلنسکی پر تنقید کی تھی جس پر وادیم کو جولائی 2023ء میں برطرف کردیا گیا تھا اور ان کی جگہ زالزنی کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ویلیئری زالزنی یوکرین میں فولادی جنرل کے نام سے مشہور تھے ۔ انہوں نے روس سے جنگ کے آغاز پر یوکرینی فوج کی قیادت کی تھی۔ تاہم صدر زیلنسکی سے اختلافات کے سبب ان کی شخصیت داغدار ہوگئی تھی اورصدر زیلنسکی نے فروری میں زالزنی کی جگہ اولکساندر سیرسکی کو سونپ دی تھی۔صحافی ہرش کے مطابق امریکہ اور یوکرین میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یوکرین جنگ ختم ہونی چاہیے اور روس کے صدر پیوٹن سے سمجھوتہ ممکن ہے ۔یاد رہے کہ صدر زیلنسکی اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اختلافات بھی اس وقت کھل کر سامنے آگئے تھے جب یوکرینی صدر وائٹ ہاؤس کے دورے پر پہنچے تھے اور میڈیا سے بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ کی باتوں سے اختلاف کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے زیلنسکی کو الیکشن کے بغیرڈکٹیٹر قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یوکرینی صدر کی مقبولیت 4 فیصد تک گر چکی ہے ۔صدر زیلنسکی کے عہدہ کی مدت پچھلے سال مئی کی 20 تاریخ کو ختم ہوگئی تھی تاہم مارشل لا کے نفاذ اور جنگ کو بنیاد بناتے ہوئے اُنھوں نے 2024ء میں صدارتی انتخابات کو منسوخ کردیا تھا۔ ہرش نے جاریہ سال کے آغاز میں کہا تھاکہ یوکرین جنگ ختم ہوجائے گی، زیلنسکی کو ایک سال میں ہٹادیا جائے گا کیوں کہ جنگ کے بعد زیلنسکی کا یوکرین میں کوئی کردار نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ زیلنسکی نے جس وقت وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو صرف کوٹ نہ پہننے پر اُنھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔