ہم امریکی انتظامیہ کو ایرانی عوام کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیں گے : روحانی
واشنگٹن : امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی مہم کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں اور وہ امریکہ کی پابندیوں کے نتیجے میں آئندہ سال کے مجوزہ فوجی اور سکیورٹی بجٹ میں 24 فی صد تک کٹوتی کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔یہ بات امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ تیل اور پیٹرو کیمیکلز کی مصنوعات ایرانی نظام کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ان کے ذریعہ ایرانی نظام اپنے عوام کو جبرواستبداد کا شکار کرتا اور اپنے تخریبی خارجہ مقاصد کو پورا کرتاہے۔انھوں نے یہ بیان امریکہ کی ویت نام کی ایک کمپنی اور اس کے چیف ایگزیکٹوآفیسر (سی ای او) پر پابندیاں کے نفاذ کے بعد جاری کیا ہے۔امریکہ کے محکمہ خارجہ نے ویت نام کی گیس اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی حمل ونقل کرنے والی کمپنی کا نام 5 نومبر 2018ء کو اپنی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔اب محکمہ خزانہ نے بھی اس پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔پومپیو کے بہ قول اب محکمہ خارجہ نے اس کمپنی کے سی ای او پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں۔انھوں نے امریکہ کے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ ’’ایرانی نظام کے کردار میں بنیادی تبدیلی کی صورت ہی میں پابندیوں میں نرمی کی جاسکتی ہے۔‘‘امریکہ کے محکمہ خزانہ نے چہارشنبہ کو ویت نام کی مذکورہ کمپنی کے علاوہ پانچ اور کمپنیوں کے خلاف بھی پابندیاں عاید کی ہیں۔ان پر ایران کی پیٹروکیمیکل مصنوعات کی حمل ونقل اور فروخت کا الزام ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ایران کے خلاف دباؤ برقرار رکھنے اور پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔اس نے منتخب صدر جو بائیڈن سے بھی کہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف دباؤ برقرار رکھنے کی مہم کو جاری رکھیں۔امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے ایران ایلیٹ ابرامس نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ہمیں انھیں (جوزف بائیڈن کو)یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ 2015ء نہیں بلکہ 2021ء ہوگا۔اس دوران میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔اس لیے اب مذاکرات کے لیے اچھے فریم ورک کے فارمولے اہم نہیں رہے ہیں۔‘‘لیکن دوسری جانب ایرانی قیادت کے لب ولہجے میں نرمی نظر آرہی ہے اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کو بائیڈن انتظامیہ سے مذاکرات کا اشارہ دے دیا ہے۔انھوں نے ایک تقریر میں کہا ہے کہ’’ اگرپابندیاں ختم کردی جاتی ہیں تو ہمیں ایک گھنٹہ بھی انتظار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ایرانی صدر نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ساتھ ہی انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہماری گذشتہ تین سال سے جاری استقامت امریکہ کی آئندہ انتظامیہ کو ایرانی عوام کے سامنے جھکنے پر مجبور کردے گی۔‘‘