امریکہ کی سوڈانی قائدین سے بات چیت، جنگ بندی پر زور

   

امریکی وزیرخارجہ بلنکن مسلح افواج کے قائدین سے مسلسل ربط میں، محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کا بیان
واشنگٹن : امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سوڈان کے متحارب گروپس کے رہنماؤں سے کہا ہے کہ انہیں شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس لڑائی میں اب تک کم سے کم 185 افراد ہلاک اور 1800 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے 18 اپریل منگل کے روز بتایا کہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سوڈان میں حریف مسلح افواج کے قائدین سے بات چیت کی ہے اور فوری طور پر جنگ بندی پر زور دیا۔محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ بلنکن نے، ”مسلسل اور اندھا دھند لڑائی کی وجہ سے بہت سے سوڈانی شہریوں کی ہلاکت اور ان کے زخمی ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔”پٹیل نے ایک بیان میں کہا کہ جنگ بندی سے، ”لڑائی سے متاثرہ افراد تک انسانی امداد کی فراہمی کے ساتھ ہی سوڈانی خاندانوں کو دوبارہ متحدہونے کا موقع ملے گا۔ اس سے خرطوم میں بین الاقوامی برادری کی محفوظ موجودگی کو بھی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔”اواخر ہفتہ سوڈان کی عبوری حکومت کی خود مختار کونسل کے سربراہ عبدالفتاح البرہان کے وفادار فورسز اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے سربراہ محمد ہمدان داگلو کی حامی فورسز کے درمیان تصادم شروع ہو گیا تھا، جو اب بھی جاری ہے۔ویدانت پٹیل نے کہا کہ انٹونی بلنکن نے بات چیت کے درمیان ”دونوں جرنیلوں کی ان کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وہ عام شہریوں، سفارتی عملے اور انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنائیں۔”ان کی اس بات چیت کے بعد ہی محمد ہمدان داگلو نے ٹویٹر پر لکھا کہ ”ہم اپنے کنٹرول والے علاقوں میں معصوم شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔”تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ ممکنہ جنگ بندی پر قائم رہیں گے یا نہیں۔ دوسری جانب عبدالفتاح البرہان نے سنیچر کی سہ پہر کے بعد سے عوامی سطح پر کھل کر کوئی بات نہیں کی ہے۔ ہفتے کے روز انہوں نے آر ایس ایف پر حملے کا الزام لگایا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ حالات ان کے قابو میں ہیں۔سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے وولکر پرتھیس کے مطابق ملک میں حریف دھڑوں کے درمیان تین روز تک جاری رہنے والی لڑائی میں کم از کم 185 افراد ہلاک اور 1,800 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔وولکر پرتھیس نے پیر کے روز حریف جرنیلوں کی زیر قیادت فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان تشدد کے بارے میں کہا کہ ”یہ ایک بہت ہی غیر واضح صورت حال ہے اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ توازن کس جانب منتقل ہو رہا ہے۔”اس دوران گروپ آف سیون نے بھی فوری طور پر دشمنی کے خاتمے کے مطالبہ کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ نے بھی فوری طور لڑائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن جاپان میں گروپ آف سیون کے اجلاس میں شریک ہیں، جہاں سے انہوں نے برہان اور داگلو سے الگ الگ فون پر بات کی اور جنگ بندی تک پہنچنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔منگل کے روز ہی جی سیون کے وزراء خارجہ نے بھی ایک مشترکہ بیان میں لڑائی کی مذمت کی اور کہا، ”ہم فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ بغیر کسی پیشگی شرائط کے فوری طور پر دشمنی ختم کریں۔” بیان میں مذاکرات کی طرف واپس آنے اور تناؤ کو کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مصر سوڈان کی فوج کا حامی ہے جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے آر ایس ایف کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رکھے ہیں، کیونکہ اس نے یمن میں جنگ کی حمایت کے لیے اپنے ہزاروں جنگجو بھیجے تھے۔ ان دونوں گروپوں نے بھی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے پیر کو دیر رات گئے ایک بیان میں کہا سوڈان میں مصر کی فوج صرف اپنے سوڈانی ہم منصبوں کے ساتھ مشقیں کرنے کے لیے موجود ہے اور وہ کسی بھی متحارب فریق کی حمایت نہیں کرتی ہے۔واضح رہے کہ سوڈان میں جھڑپیں شروع ہونے کے بعد آر ایس ایف نے ایک ویڈیو شیئر کی تھی، جس میں مصری فوجیوں کو دکھایا گیا تھا کہ انہوں نے شمالی قصبے میروئے میں ان کے سامنے ”ہتھیار ڈال دیے” تھے۔السیسی نے یہ بھی کہا کہ مصر سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ انہیں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی ترغیب دی جا سکے۔