امریکہ کی مذہبی آزادی فہرست ،ہندوستان باہر ،پاکستان شامل

   

پاکستان نے امریکی وزارت خارجہ کی تازہ ترین رپورٹ مسترد کردی
واشنگٹن: امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے خصوصی تشویش پائی جاتی ہے جبکہ فہرست سے ہندوستان کو باہر کردیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے پاکستان، روس، سعودی عرب، چین، برما، ایریٹریا ، شمالی کوریا، تاجکستان اور ترکمانستان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے منظم، متواتر اور سنگین خلاف ورزیوں کے مبینہ الزامات کے پیش نظر ’سی پی سی‘ یعنی ایسے ممالک کی فہرست جن کے بارے میں مذہبی آزادی کے حوالے سے خصوصی خدشات پائے جاتے ہیں میں شامل کر دیا ہے۔اس کے علاوہ الجیریا، کوموروس، کیوبا اور نکوراگوا کو اسپیشل واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ انممالک کے بارے میں خدشات ضرور ہیں تاہم یہاں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں سی پی سی کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔امریکی انتظامیہ یہ فہرستیں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سفارشات کی بنیاد پر ترتیب دیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی آزادی کا جائزہ لینے والے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے ہندوستان کا نام اس فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی لیکن اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے ہندوستان کا نام فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے 2002ء کے بعد سے ہر سال یہ تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے۔امریکی وزارت خارجہ نے 2018ء میں پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا تھا اور 2019ء میں اسے برقرار رکھا۔ کمیشن کے جون 2020ء اپنے ہی ایک پالیسی پیپر کے مطابق امریکہ نے اس کے بعد خطے میں اپنے سیکورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان کو 2020ء میں استثنیٰ دے دیا تھا۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حکومت نے منظم انداز میں توہین مذہب اور احمدی مخالف قوانین پر عمل درآمد کیا اور مذہبی اقلیتوں کو غیر ریاستی عناصر سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ٹارگٹڈ کلنگ، توہین مذہب، مذہب کی جبری تبدیلی، نفرت پر مبنی بیانات اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے،جس میں احمدیوں، شیعہ مسلمانوں، ہندوؤں، مسیحی برداری اور سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ رویے کا بہترین اندازہ احمدی برادری کے ساتھ رویے سے لگایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں کچھ واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔دوسری طرف پاکستان نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کی تازہ ترین رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان نے اس جائزے کو ’یکطرفہ‘ قرار دیا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی وزارت خارجہ کا جائزہ ’’زمینی حقائق کے یکسر خلاف‘‘ اور’’ یکطرفہ‘‘ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے بیان اس طرح کے جائزے کی معتبریت پر سوالات کھڑے کرتے ہیں۔ کسی ملک پر اس طرح انگلی اٹھانے سے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے کاز کو فروغ دینے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عدم رواداری، تفریق، دیگر اقوام سے منافرت اور اسلاموفوبیا کے خلاف کی جانے والی عالمی کوششیں باہمی تعاون اور باہمی افہام کے اصولوں پر مبنی ہونی چاہئیں۔