امریکہ کے جی پی ایس کیخلاف چین اپنی ٹکنالوجی کے آغاز کیلئے تیار

,

   

بیجنگ۔13 جون (سیاست ڈاٹ کام) چین نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) کے مقابلے میں اس کی جانب سے تیار کیا جانے والا بیدویو نیوی گیشن سیٹلائیٹ سسٹم (بی این ایس ایس) رواں ماہ آخری سیٹلائیٹ خلا میں چھوڑے جانے کے ساتھ مکمل ہوجائے گا۔جی پی ایس سیٹلائیٹس کو لوکیشن ڈیٹا بیمنگ کے لیے اسمارٹ فونز، گاڑیوں کے نیوی گیشن سسٹمز اور اس طرح کے تمام نظاموں میں استعمال کیا جارہا ہے اور ایسے تمام سیٹلائیٹس کو امریکی فضائیہ کنٹرول کرتی ہے اور اب چین دنیا کا دوسرا ملک بننے والا ہے جو اس ٹیکنالوجی کو تشکیل دینے میں کامیاب رہا ہے۔چین نے 1990 کی دہائی میں بی این ایس ایس کا خیال پیش کیا تھا کیونکہ اس کی فوج امریکی فضائیہ کے زیرتحت چلنے والے جی پی ایس پر انحصار کم کرنا چاہتی تھی۔2000 میں پہلے بیدویو سیٹلائیٹس کو لانچ کیا گیا جس کی کوریج چین تک محدود تھی لیکن 2003 میں موبائل ڈیوائسیس کے استعمال میں اضافے کے بعد چین نے یورپی یونین کے تجویز کردہ گیلیلو سیٹلائیٹ نیوی گیشن سسٹم میں شمولیت کی کوشش کی اور پھر بیدویو پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اس سے دستبرداری اختیار کرلی۔آئی فون کے عہد میں دوسری نسل کے بیدویو سیٹلائیٹس 2012 میں قابل استعمال ہوئے جو ایشیا پیسیفک کا احاطہ کرتے ہیں۔چین نے عالمی کوریج کے لیے تیسری نسل کے سیٹلائیٹس کو 2015 میں خلا میں بھیجے اور35واں اور آخری سیٹلائیٹ جون میں بھیجا جارہا ہے، جس کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا۔جی پی ایس کے 31 سیٹلائیٹس خلا میں بھیجے گئے یعنی بیدویو میں زیادہ سیٹلائیٹس ہوں گے۔چین نے اس منصوبے پر 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے، تاکہ چین افواج کا کمیونیکشن نیٹ ورک محفوظ اور کسی بڑے تنازعہ پر جی پی ایس سے محرومی کا خطرہ نہ ہو۔منصوبہ مکمل ہونے پر بیدویو کی لوکیشن سروس ایشیا پیسیفک میں 10 سینٹی میٹر تک درست ہوں گی جبکہ جی پی ایس میں یہ شرح 30 سینٹی میٹر ہے۔