امریکہ ۔ مختصر معلومات

   

خواجہ رحیم الدین ،ایم اے بی ایڈ عثمانیہ
اگر ہم پہلی بار امریکہ جارہے ہوں تو ان الفاظ کو ضرور یاد رکھیں مثلاً Please ، Excuseme ، Hello، Good Night ، Good Morning ، Bye Bye، Thank You اور پھر دیکھیں کہ امریکہ اپنی مٹھی میں ہے۔ ادب و آداب کا ضرور خیال رکھیں یہاں جھوٹ سے ضرور دور رہیں۔ جھوٹ کا سہارا لینے والے آگے نقصان اُٹھالیتے ہیں۔ مال دوکان میں جانے کے بعد سامان خریدنے کے بعد لائن میں کھڑے ہوکر بل ادا کرنا ایک پیسہ کم ہو تو وہ سامان نہیں لے سکتے۔ اگر ایک پیسہ آنا ہو تو وہ ادا کردے گا۔ ہاں سامان خریدنے کے بعد باہر نکلتے وقت جس چیز کی قیمت ادا نہیں کریں تو گھنٹی بج جائے گی اور گیٹ کیپر روک لے گا۔ ایک واقعہ بیان کردوں، ایک محترمہ اپنے شوہر کے ساتھ مال (دوکان) میں گھومتی رہیں، آخر جہاں سونا (Gold) رکھا ہوا تھا، ایک سونے کا ہار اپنے بیاگ میں رکھ لیا۔ جب وہ باہر نکلنے والی تھیں گھنٹی بجنا شروع ہوگئی۔ نگرانکار Security Guard آگیا، بیاگ کی تلاشی لی گئی، ہار برآمد ہوا، پولیس طلب کرلی گئی۔ قانون کے مطابق چوری کے الزام میں محترمہ کا پاسپورٹ حاصل کرلیا اور اُس پر ریمارک لکھ دیا کہ آئندہ امریکہ نہیں آئیں، ہوا یہ کہ وہ آج تک امریکہ نہ جاسکیں۔ امریکہ کے مسلمانوں میں اللہ کا ڈر ضرور ہے۔ یہاں نوے فیصد لوگ کار چلاتے ہیں، عمر اسّی سو بھی ہو تو کار چلاتے ہیں اور وہ بھی 45 سے 160 میل رفتار سے کار چلاتے ہیں۔ اگر معذور ہو تو وہ اپنی مقررہ لکھے بورڈ پر ٹھراتے ہیں وہاں دوسرے کار رکھ نہیں سکتے ورنہ ٹکٹ (جرمانہ) مل جائے گا۔ امریکہ میں پولیس کا انتظام عمدہ ہے۔ رات ہو یا دن پولیس سڑک پر نظر آئے گی۔ کسی وقت بھی کار ڈرائیور خلاف ورزی نہیں کرتا۔ چھوٹی سی بھی غلطی پر کار کو ٹکٹ (جرمانہ) دے دیا جاتاہے ۔
بار بار جرمانے پر ڈرائیونگ لائسنس پر اثر پڑتا ہے۔ یہاں کار میکانک اور ٹیکسی ڈرائیور زیادہ کماتے ہیں۔ مجھے اپنی کار کو لائٹ کا ایک بلب لگوانے کے لئے 60 ڈالر دینا پڑا۔ (6 ہزار روپئے) ۔ پڑھے لکھے قابل امریکہ جانا صرف کمانے کی غرض سے نہیں۔ جعلی اسناد سے بہت دور رہنا بہتر ہے۔ امریکہ میں ہر چیز ضرور سستی ہے، محنت کی ضرورت ہے، انڈے پر بھی ٹیکس ہے۔ گوشت کے ڈبے پر حلال ضرور لکھا ہوتا ہے پر استعمال نہ کریں۔ مگر ہر کام کرنے والی ملازمہ تقریباً ماہانہ چالیس ہزار روپئے ضرور حاصل کرلیتی ہے۔ یہاں بڑی سے بڑی چھوٹی سے چھوٹی ایک ڈالر کی دکان بھی ہے۔ امریکہ میں 99 فیصد مکانات لکڑی کے ہوتے ہیں اور وہ بھی مضبوط ہوتے ہیں اور وہ بھی کئی منزلہ ہیں۔ یہاں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ برف گرتی رہتی ہے اور صفائی ہوتی رہتی ہے۔
امریکہ میں کھانا کام کرنے کے لئے کھایا جاتا ہے اور دوسرے ممالک میں شاید پیٹ بھرنے کیلئے کھایا جاتا ہے۔ نیویارک میں یہودی بہت ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور محنتی۔ حال ہی میں نیویارک سے زہران ممدانی میئر کے عہدہ پر منتخب ہوئے ہیں جن کو 90 فیصد یہودیوں نے ووٹ دیا۔ وہاں میرا ووٹ بھی شامل ہے۔ ممدانی کے خاص دوست مصطفی بھائی اور میری محترم عامر علی خان صاحب نیوز ایڈیٹر سیاست سے تین ماہ پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ ان شاء اللہ جناب عامر علی خاں صاحب سے ممدانی صاحب حلف لینے کے ایک دو ماہ بعد مصطفی بھائی ممدانی صاحب کو حیدرآباد لاکر جناب عامر علی خاں صاحب سے ملاقات ہوگی۔ یہاں پیدل چلنے والوں کی بہت زیادہ قدر کی جاتی ہے، یہاں کی زندگی ایک مشینی سائنٹفک زندگی ہے۔ یہاں کسی کا انتقال ہوجائے تو پولیس، بلدیہ، دواخانہ ان تمام مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مکان میں میت کو غسل (نہلانا) نہیں دے سکتے، جلد از جلد گھر سے میت کو مسجد میں جہاں میت کا کمرہ ہوتا ہے رکھا جاتا ہے اور غسل وغیرہ دیا جاتا ہے اور کبھی کچھ عرصہ کیلئے رکھا بھی جاتا ہے۔ یہاں دفنانے کا طریقہ الگ ہے۔ سبل سے نہیں کھودتے، سب مشینی ورک ہوتا ہے۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مٹی اِدھر اُدھر نظر نہیں آتی، کرین سے اندر اُتارتے ہیں۔یہاں کی لڑکیاں اور ہندوستانی، پاکستانی، بنگلہ دیشی لڑکیاں اپنے دوستوں سے ملنے ضرور چلی جاتی ہیں جس سے ماں باپ کا بلڈ پریشر ضرور بڑھ جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو گھروں میں اکیلا چھوڑنا جرم ہے۔ کار میں چھوٹے بچوں کو خاص جگہ پر بیلٹ باندھ کر بٹھایا جاتا ہے۔ امریکہ کے گھروں میں کرنٹ (بجلی) 120 پاور کی ہوتی ہے، دوسرے کئی ممالک میں تقریباً 240 پاور کی ہوتی ہے۔
یہاں امریکہ میں دنیا کے ہر مذہب کے لوگ آباد ہیں۔ امریکہ کا انتظام بہت عمدہ ہے۔ ہر فرد سکون سے زندگی گزار سکتا ہے۔ یہاں پڑھنے آئے ہوں تو پڑھ کر چلے جائیں، بغیر ویزے کے رہنے کی کوشش نہ کریں۔ یہاں اجازت سے ہتھیار رکھ سکتے ہیں لیکن احتیاط ضروری ہے۔ ہندوستانی شہری یہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں (کر محنت کھا نعمت)۔ اگر دیگر ممالک کی پولیس یہاں آکر ٹریننگ حاصل کرے تو بہتر ہے۔ یہاں کے بچے پڑھائی کے ساتھ بہت محنت کرتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے لڑکے لڑکیاں جو یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ہوٹل اور مال وغیرہ میں بغیر عیب کے کام کرلیتے ہیں اور اپنی تعلیمی فیس ادا کرلیتے ہیں، وقت کی قدر ضروری ہے۔ ہاں یہاں امریکہ میں بقرعید (عیدیں) اِسی طرح منائی جاتی ہیں کہ بکرا گھر لاکر ذبح نہیں کیا جاسکتا، خون بہا نہیں سکتے، بکرے کی آواز سنائی نہیں دے سکتی، یہ یہاں کا قانون ہے۔ اگر بکرا اپنے ہاتھ سے کاٹنا ہو تو فارم ہاؤز جانا پڑتا ہے۔ یہاں بکرے کی دکان پر لکھا رہتا ہے صد فیصد حلال۔ آج تک راقم الحروف اس فرق کو نہیں سمجھ سکا۔ شکاگو (ILLINOIS) میں عید کچھ نظر آتی ہے جہاں لوگ گلے تو مل لیتے ہیں۔ یہاں عیدوں میں شیروانی کرتا پاجامہ پہن کر باہر نظر نہیں آتے، پر میں ہمت ضرور کرلیتا ہوں۔ یہاں پر ہندوستانی، پاکستانی، ترکی، ایرانی، افغانی، فلسطینی تقریباً ہر ملک کی ہوٹلیں ہیں۔ آج دنیا میں امریکہ اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور سوپر پاور ہے۔ علامہ اقبال نے کہا :
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اُس راہ پہ چلانا مجھ کو