امریکی اخبار کی نظر میں اردغان کی عوامی مقبولیت میں کمی

,

   

نیویارک۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک ڈکٹیٹر قرار دیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اردوغان عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ اپنے منتخب مخالفین ، نقادوں اور دیگر کو گالیاں دیتے ہیں۔ وہ اپوزیشن جماعتوں سیتعلق رکھنے والے میئروں کو کچلنے اور انہیں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار کے مطابق اردوغان کے دور میں ترکی میں جمہوریت کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خود اردوغان کی اپنی عوامی مقبولیت بھی ختم ہو چکی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک کرد نواز ترک میئر ایھان بیلگن کا انٹرویو بھی لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترک صدر طیب اردوغان اور ان کی جماعت کے اقتدار کی موجودگی میں کردوں کے حامی کسی شخص کا اپنے عہدے پر قائم رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہیں ہروقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ رواں سال مارچ میں ترکی بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے 65 امیدواروں نے بلدیاتی کونسلوں کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں ترکی کی حکمران جماعت آق نے 10 کونسلوں کیسوا باقی تمام کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور کم سے کم 20 میئروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 میں ناکام بغاوت کے الزامات کے بعد اپوزیشن جماعتوں ، عوامی گروپوں اور اردوغان کے لیے ناپسندیدہ افراد کے خلاف ترکی کا کریک ڈاؤن تیز ہو گیا ہے۔ لیکن بہت سے منتخب میئروں کی برطرفی، جو لاکھوں ووٹرز کی خواہش کی نمائندگی کرتے ہیں ملک میں جمہوریت کو درپیش خطرات کا ایک واضح مظاہرہ تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں، تجزیہ نگاروں اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کے مطابق حکومت نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے میئروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔پارٹی کے زیر انتظام میونسپلٹیوں کو نشانہ بنانا ترکی کی سیاست کی ایک خصوصیت بن گیا ہے۔

یہ سلسلہ 2016 کے بعد سے مزید تیز ہو گیا ہے۔مشرقی ترکی کے کارس کے میئر بلگین کے بموجب جب ہم ہر رات سونے جاتے ہیں تو ہمیں بی حفاظت صبح کا یقین نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت اپنی گرفتاری کا کھٹکا لگا رہا ہے۔ کردوں کے حامی میئروں کی حکومت کا تعاقب حکومت کی حکمت عملی ہے۔واشنگٹن میں مشرق وسطی انسٹی ٹیوٹ میں ترکی کے پروگرام کے ڈائریکٹر گونول ٹول نے کہا کہ ایک الٹرا نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کے بعد اردوغان کی ایچ ڈی پی مخالف پالیسی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس شراکت سے صدر کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ دوسری طرف ترک حکام انکار کرتے ہیں کہ اے کے پارٹی کے خلاف ان کے اقدامات سیاسی انتقام پرمبنی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ محض ایک قانونی مسئلہ ہے اور حکومت آئین کی بالادستی کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔یاد رہے کہ ارغان کی جانب سے آیا صوفیہ کے میوزیم کو دوبارہ مسجد کا درجہ فراہم کرنے اور جمعہ کو اس میں باضابطہ نماز کا اعلان کے بعد ترکی اور مغربی دنیا میں کشیدگی کاماحول دیکھا جارہا ہے۔