روش کمار
جس کسی بھی معاشرہ میں تشدد اور تشدد کا انتقام لینے کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں جہاں لوگ اسے صبح ٹھہرانے میں دن رات مصروف رہتے ہیں، اس کے اثر میں کسی کو کبھی یہ محسوس ہوسکتا ہے کہ تشدد برپا کرنا صحیح ہے اور تاریخ یا ماضی کے کسی واقعہ کا بدلہ اس طرح سے لیا جاسکتا ہے۔ تشدد کی یہ سوچ معاشرہ کو غیریقینی حالات کا شکار اور غیرمحفوظ بنا دیتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کون کہاں سے آئے گا، بندوق اُٹھاکر کسی کو چھلنی کردے گا۔ دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں۔ دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن معاشرہ میں تشدد کے ان چھوٹے چھوٹے گھروں کو بنانے والا معاشرہ کبھی دہشت گردی سے آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔ منگل کی صبح امریکہ کے ٹیکساس کے ایک شہر کے راب ایلمنٹری اسکول(Robb Elementary School) میں اندھادھند فائرنگ کی گئی جس میں 21 افراد بشمول 19 بچوں کی زندگیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ مہلوکین میں دو اساتذہ بھی شامل ہیں۔ 18 سالہ سلواڈر راموس کسی ریسٹورینٹ میں کام کرتا تھا، اسے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے وہ چپ رہنے لگا تھا۔ اسکول پر فائرنگ سے ایک دن قبل اس کے راب ایلمنٹری اسکول جانے کی بات بھی سامنے آئی ہے جہاں کا وہ کبھی طالب علم تھا۔ اس اسکول میں سینئر طلباء کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ جونیر طلباء کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔ امریکی میڈیا میں سلواڈر کے اسکول آنے اور نہ آنے کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔ منگل کے دن دوپہر سلواڈر راموس اپنے بچپن کے اسکول جاتا ہے۔ اسکول جانے سے پہلے گھر میں اپنی دادی کو گولی مار دیتا ہے۔ اس کے بعد اسکول پہنچ کر بچوں پر اندھادُھند فائرنگ کردیتا ہے۔ سلواڈر راموس کے بندوق سے نکلنے والی گولیوں کی زد میں آکر 19 بچے مارے گئے۔ دو ٹیچروں کی زندگیاں بھی ختم ہوگئیں۔ مرنے والے بچوں کی عمریں 7 تا 10 سال کی بتائی گئی ہیں۔ یہ بچے دوسری تیسری اور چوتھی جماعت میں زیرتعلیم تھے۔ سلواڈر راموس نے اسکول کے ٹیچرس کو بھی نہیں چھوڑا اور آخر میں وہ پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس اسکول میں پڑھنے والے زیادہ تر بچے ہسپانوی نژاد ہیں اور ان کی تعداد 600 ہے۔ویسے بھی جنوبی امریکہ اور وسطی امریکہ سے آنے والے کسی کو بھی شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں ہسپانوی کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا احساس ہے کہ غیرقانونی طریقوں سے آنے والے ہسپانوی باشندوں کا تسلط بڑھ رہا ہے۔ یہ سب کتنا بھیانک ہے مگر امریکہ ایسے کئی بھیانک واقعات سے باہر نکل کر معمول پر واپس آتا رہا ہے لیکن تشدد کے پیچھے کارفرما وجوہات کو ٹھیک سے نمٹنا نہیں جاسکا۔ تشدد سے آپ آدھی ادھوری لڑائی نہیں لڑسکتے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دوسرے ملک پر جنگ مسلط کردیں اور اپنے ملک میں چل رہی نفرت کی جنگ سے نظریں موڑ لیں۔ آپ ہندوستان میں ایسے عناصر سے بھی ٹکرا سکتے ہیں جو تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان دنوں لوگ دن رات اس کی تاریخ کا انتقام لینے کا منتر پھونک رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں جبکہ صدر جوبائیڈن کو معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ میں جاریہ سال اسکولوں میں فائرنگ کا یہ 28 واں واقعہ ہے۔ ٹیکساس واقعہ سے پہلے 27 مرتبہ اسکولوں میں گولیاں چل چکی ہیں۔ 2018ء سے اب تک اسکولوں میں فائرنگ کے 119 واقعات پیش آچکے ہیں۔ سال 2021ء میں اسکولوں میں پیش آئے فائرنگ کے واقعات کی تعداد 34 رہی جو سب سے زیادہ ہے۔ 2018ء اور 2019ء دونوں برسوں میں فائرنگ کے 24 واقعات پیش آئے۔ ڈسمبر 2012ء میں ایک بندوق بردار نے ینڈی ہک ایلمنٹری اسکول میں داخل ہوکر 26 افراد کو قتل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔وہ واقعہ نیو ٹاؤن کینکٹس کٹ میں پیش آیا۔ اس واقعہ کے ملزم ایڈم لائینز کی عمر صرف 20 سال تھی۔ وہ اپنے گھر سے تین بندوقیں لے کر اسکول آیا تھا۔ 2018ء میں پارک لینڈ کے مارچوری اسٹون مین ڈیگلس ہائی اسکول میں 17 طلباء اور اساتذہ کو قتل کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بھی صدر بائیڈن کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ٹیکساس جیسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے واقعات نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ملکو ںمیں کئی مرتبہ ہوچکے ہیں۔ خطرناک واقعہ ڈسمبر 2014ء میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے ایک اسکول پر دہشت گردانہ حملہ کا پیش آیا تھا جس میں 132 بچے مارے گئے۔ ساتھ ہی اس حملے میں اسکول کے کم از کم 10 ملازمین کی جانیں گئی تھیں۔ 100 سے زائد طلباء زخمی ہوئے۔ دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے اور بینچوں کے نیچے چھپے بچوں کو بڑی بیدردی سے قتل کردیا۔ وہ کوئی عام اسکول نہیں تھا بلکہ آرمی پبلک اسکول تھا مہلوک طلباء کی عمریں 12 تا 16 سال کے درمیان تھیں۔
امریکہ میں لوگ بغیر لائسنس کے بندوقیں خریدتے ہیں اور امریکی دستور اپنے شہروں کو نیا لائسنس ہتھیار خریدنے ہتھیار رکھنے کا حق دیتا ہے۔ جہاں تک ٹیکساس کا سوال ہے، وہاں تقریباً 46% لوگوں کے پاس بندوقیں ہیں لیکن اس کیلئے اب ٹیکساس کے گورنر گریگ اَباٹ کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ قوانین کو آسان بنانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ بغیر لائسنس کے اپنے پاس بندوقیں رکھ سکیں اور بندوقیں خریدنے والوں کے بارے میں کوئی تفتیش نہیں ہونی چاہئے۔ ریپبلیکنس گورنر نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ تمام اعتراضات کے بعد بھی وہ اس بل پر دستخط کرکے قانون بنائیں گے۔ امریکہ میں بندوق بنانے والے چاہتے ہیں کہ ان کا کاروبار زور و شور سے جاری رہے، وہ یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ بندوق خریدنا مشکل ہو۔
امریکہ ہو یا ہندوستان جہاں کہیں ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ دراصل نفرت، تعصب اور نسلی امتیاز اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ 14 مئی کو بفالو نیویارک میں 18 سالہ پیٹان اپس گینڈران نے ایک سوپر مارکٹ میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کی اور 10 افراد کو ہلاک کردیا۔ اس واقعہ کو اس نے انٹرنیٹ پر لائیو براڈ کاسٹ بھی کیا۔ اس نے 180 صفحات بھی پوسٹ کئے جس میں سفید فام باشندوں کی عظمت اور ان کی برتری کے بارے میں جھوٹی باتیں لکھی گئی تھیں۔ امریکہ میں بھی یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ایک دن سیاہ فام باشندے سفید فام باشندوں سے اقتدار حاصل کرلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نفرت کی مہم میں سیاہ فام باشندوں کو نشانہ بناکر قتل کیا جارہا ہے۔ مذکورہ نوجوان نے لکھا کہ وہ سیاہ فام باشندوں کا قتل کرنے کا کئی دن سے خواب دیکھ رہا تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر چلائی جارہی ہے۔ ایک دن اس ملک کا وزیراعظم ’مسلمان‘ ہوگا۔ غرض ہندوستان میں بھی دن رات مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ حالانکہ کسی بھی مذہب کی برتری سے متعلق نعرہ ایک بیوقوفی ہے۔ ہمارے ملک میں گودی میڈیا صرف اور صرف مذہب، ہندو ۔ مسلم پر مباحث کررہا ہے۔ حال ہی میں کئے گئے جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ ایک ماہ میں کئے گئے 150 مباحثوں میں سے 138 مباحث مذہب پر تھے۔ اس وقت مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے، گرمی نے لوگوں کا حال برا کردیا ہے۔ آسام میں سیلاب کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے باوجود گودی میڈیا نے مذہب پر ہی مباحث کئے۔ یہ نیوز چیانلس مذہب کے نام پر مذہب کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔