پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
ایک اور مضبوط لیڈر منتخب ہوگیا ہے اس نے دنیا کی قدیم جمہوریتوں میں سے ایک کے جمہوری انتخابات میں منصفانہ اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ امریکی صدارتی انتخابات اور ان کے نتائج پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ بہ الفاظ دیگر امریکہ میں انتخابی عمل کی قانونی حیثیت پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے الیکٹورل ووٹس کی اکثریت حاصل کی۔ 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کو 295 اور ان کی حریف ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیریس کو 225 الیکٹورل ووٹ حاصل ہوئے۔ اگر ان انتخابات میں دونوں پارٹیوں کے صدارتی امیدواروں کو حاصل ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو زائد از 72.5 ملین ووٹ حاصل ہوئے جبکہ کملا ہیریس زائد از 68.15 ملین ووٹ حاصل کرسکی۔ 2024 کے ان صدارتی انتخابات میں ایک طرح سے امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے اکثر ریاستوں پر (30 ریاستوں میں ٹرمپ اور 20 میں کملا ہیریس کو غلبہ حاصل رہا) ریپبلکن پارٹی چھائی رہی۔ اسے مزید تقویت اس وقت ملی جب پارٹی نے امریکی سینیٹ کا کنٹرول حاصل کرلیا اور اس امر کا امکان ہے کہ ایوان نمائندگان پر بھی تسلط حاصل کرے گی۔ کسی بھی لحاظ سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر معیار سے یہ کامیابی مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کے لیے ایک جامع اور زبردست کامیابی ہے۔ امریکی انتخابی نتائج کے بارے میں جو کچھ پیش قیاسیاں کی گئیں وہ بری طرح غلط ثابت ہوئیں۔ مثال کے طور پر سوئنگ اسٹیٹس یا پانسہ پلٹنے والی ریاستوں جیسے اریزونا میں ڈونالڈ ٹرمپ کو 1,303,793 اور کملا ہیریس کو 1,167,898 ووٹ حاصل ہوئے جہاں تک جارجیا کا سوال ہے وہاں سے ڈونالڈ ٹرمپ نے 2,654,306 اور کملا ہریس نے 2,538,986 ووٹ حاصل کئے۔ مشی گان میں بھی ٹرمپ چھائے رہے انہیں اس ریاست سے 2,799,713 ووٹ ملے جبکہ ان کی حریف کملا ہیریس کو 2,715,684 ووٹ حاصل ہوسکے۔ نیواڈا میں ٹرمپ کو 688,179 اور کملا ہیریس کو 647,247 ووٹ مل سکے۔ اب بات کرتے ہیں شمالی کیرولینا کی وہاں ڈونالڈ ٹرمپ 2,876,141 اور کملا ہیریس 2,685,451 ووٹ بٹور سکے۔ پنسلوانیہ میں ٹرمپ نے 3,473,325 ووٹ حاصل کئے۔ کملا ہیریس 3,339,559 ووٹ حاصل کرسکی۔ وسکانسن میں بھی ٹرمپ نے ہی برتری حاصل کی۔ ٹرمپ کو 1,697,237 جبکہ کملا ہیریس کو 1,668,757 ووٹ ملے۔ سخت مقابلہ کے ان انتخابات میں اکثریت بہت اہم رہی۔
MAGA کا مطلب کیا ہے؟ : زیادہ تر آزاد مبصرین اور زیادہ تر غیرجانبدار و غیر متعصب میڈیا اس امر پر متفق تھے کہ مسٹر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور ان کی تقاریر بدتمیزی، نسل پرستانہ گالی گلوج اور تفرقہ انگیزی سے بھرپور تھیں لیکن امریکی عوام کی اکثریت نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ ہاں انہیں جس بات کی پرواہ تھی اور بظاہر جس مسائل کو لے کر فکرمند اور تشویش میں مبتلا تھے وہ ایمگریشن، افراط زر (مہنگائی) اور جرائم جیسے مسائل تھے۔ مہنگائی کے علاوہ دیگر دو مسائل نہیں تھے جنہیں ہم دال روٹی (روٹی اور مکھن) کا مسئلہ کہتے ہیں انہیں ڈھیلے انداز میں بقاء یا غرق کے مسائل کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایمگریشن کو لوگوں (ہم جیسے لوگوں کے لیے نہیں) کے لیے دروازہ کھولنے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکی سفید فام امریکی عیسائی شہریوں کو بعد کے تارکین وطن (خاص طور پر لاطینی رائے دہندوں ) نے بھی یہی محسوس کیا کہ نئے تارکین وطن پرانے تارکین وطن کے لیے خطرہ ہیں۔ جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے یہ ہر ملک کا مسئلہ ہے۔ ہر ملک اس سے پریشان ہے۔ اگرچہ امریکہ میں افراط زر پر قابو پایا گیا اور یہ 2.4 فیصد ہے جبکہ امریکی فیڈرول پالیسی انٹرنس ریٹ کو کم کرنے کے لیے بالکل تیار ہے (یہ کم افراط زر کی ایک علامت) ہے اس کے باوجود ریپبلکن پارٹی کے ہاتھوں میں افراط زر ایک طاقتور ہتھیار تھا اور ان لوگوں نے رائے دہندوں کو اپنی تائید و حمایت کی جانب راغب کرنے میں اس ہتھیار کا اچھی طرح استعمال کیا۔ ویسے بھی جرم ہر موسم کا ہتھیار ہے اور اقتدار پر فائز کوئی بھی حکومت زبان ہے۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیرت میں ڈالا وہ یہ تھی کہ امریکی رائے دہندوں نے گالی گلوج پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
میانہ روی اور شائستگی کھوگئی: دوسری طرف کملا ہیریس نے اپنی انتخابی مہم میں جن اہم اور اصل مسئلوں کو اٹھایا ایسا لگتا ہے کہ وہ رائے دہندوں کی اکثریت کو متاثر نہیں کرسکی۔ مثال کے طور پر کملا ہیریس نے اسقاط حمل اور حقوق نسواں، تقدس آئین، نسلی مساوات اور ہمدردی کا سہارا لینے کی کوشش کی لیکن ان کی کوشش ناکام ہوگئیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ مذکورہ اقدار ٹرمپ کے خلاف انتخابی جنگ میں شکست سے دوچار ہوگئے۔ یہ ایسے اقدار ہیں جن کا ٹرمپ زیادہ احترام نہیں کرتے اگر ہم امریکی صدارتی انتخابی مہم میں چھیڑے گئے یا نظرانداز کئے گئے مسائل کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس انتخابی مہم میں ایک ایسا مسئلہ جو بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اسے بالکل نظرانداز کردیا گیا اور وہ مسئلہ تقریباً 44 ہزار فلسطینیوں کے ظالمانہ و بیدردی سے کئے گئے قتل ہیں۔ مقتولین میں خواتین بچوں اور اقوام متحدہ کے ارکان عملہ بھی شامل ہیں۔ (44 ہزار شہداء میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں) جبکہ یوکرین پر روسی قبضہ اور حملے کے مسئلہ نے شائد ہی کوئی لہر اور ہلچل پیدا کی۔ دوسری طرف امریکی رائے دہندوں نے چین کی تائیوان کو دھمکیوں، شمالی کوریا کی جانب سے طویل فاصلہ تک مار کرنے والے بین براعظمی میزائلوں کے تجربات (یہ میزائل سرزمین امریکہ کو نشانہ بناسکتے ہیں) کئی ملکوں میں جاری خانہ جنگیوں اور نام نہاد جمہوریتوں میں اظہار خیال کی آزادی پر پابندیوں جیسے مسائل کو اہمیت ہی نہیں دی۔ ایک اور اہم بات یہ رہی کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی رائے دہندے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ وہ کس کے حق میں ووٹ کا استعمال کررہے ہیں اور بالآخر سزاء کے منتظر ایک خاطی قرار دیئے گئے شخص کو منتخب کررہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی پر اقتصادی شعبہ کی جن اہم شخصیتوں اور اداروں نے خوشیاں منائی، پر جوش انداز میں مسرت کا اظہار کیا تو وہ بڑی بڑی تیل، فارما اور ٹیکنالوجی کی کمپنیاں ان کے مالکین ہیں۔
صنف اور رنگ: بالآخر امریکیوں نے اپنے رجحان اپنی پیش قیاسیوں اور تعجب کے مطابق ووٹ دیا ہے۔ مرد رائے دہندوں نے مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیا۔ نوجوان رائے دہندوں (18-29 سال عمر کے حامل) نے مسٹر ٹرمپ کو ترجیح دی۔ وزلنگ کلاس رائے دہندوں نے بھی ٹرمپ کو ترجیح دی۔ اسی طرح نان گریجویٹ رائے دہندوں کی ترجیح بھی مسٹر ٹرمپ رہے۔ یہاں تک کہ لاطینی رائے دہندوں (میکسیکن پیورٹوریکنس اور کیوبنس) کی ترجیح بھی ٹرمپ ہی رہے۔ اگر دو ٹوک انداز میں سچ بات کی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں نے کملا ہیریس کو ان کی صنف اور رنگ کی وجہ سے ووٹ نہیں دیا۔ بہرحال اب اس بات کی چیمہ گوئیاں کی جارہی ہیں کہ آیا امریکی انتخابات کا اثر دوسرے ملکوں کے انتخابات پر پڑے گا؟ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی دوسرے ملکوں کے لیڈران کو بدزبانی اور تخریبی تقاریر و بیانات کی تقلید کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں جسے ٹرمپ نے امریکی انتخابی مہم میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ اگر مسٹر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ماڈل (نمونہ) دوسرے ملکوں میں پھیل جائے تو یہ جمہوریت کے لیے بڑا دھچکا ہوگا۔