امریکی شٹ ڈاؤن

   

بد دعاؤں سے یہ بھی ہوتا ہے
پیڑ پر اک ثمر نہیں آتا
امریکی شٹ ڈاؤن
امریکی سرحدی دیوار کی تعمیر کے لیے شٹ ڈاؤن کو طویل مدت تک جاری رکھنے کی دھمکی مسئلہ کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوگی یا نہیں یہ کانگریس کے موقف پر منحصر ہے ۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ بضد ہیں کہ وہ میکسیکو پر دیوار تعمیر کرنے کی خاطر شٹ ڈاؤن کا عمل ہفتوں بلکہ برسوں تک جاری رکھیں گے ۔ امریکہ کو ایک محفوظ ملک بنانے کے اپنے انتخابی وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش میں سرکاری نظام کو ٹھپ کر کے رکھنے سے معاشی نقصانات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ اخراجات کا بل منظور نہ ہونے سے تقریبا 8 لاکھ وفاقی ملازمین گذشتہ 22 دسمبر سے بغیر تنخواہ کے کام کررہے ہیں ۔ شٹ ڈاؤن کا یہ تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا ہے ۔ ڈیموکریٹس نے ٹرمپ نظم و نسق کے منصوبوں کے مطابق فنڈنگ کی منظوری سے انکار کردیا ہے ۔ جس کے بعد صدر ٹرمپ کا رویہ بھی تلخ ہوگیا ۔ ڈیموکریٹس اور صدر ٹرمپ کی اس رسہ کشی سے امریکہ کی معاشی کیفیت کو دھکہ پہونچے تو اس کے لیے قصور وار کون ہوگا ۔ امریکہ کی تاریخ میں شٹ ڈاؤن کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس سے قبل سب سے پہلا شٹ ڈاؤن 30 ستمبر 1976 کو 10 دن کا تھا ۔ دوسرا شٹ ڈاؤن 30 ستمبر 1979 کو 11 دن کا رہا ۔ اسی طرح 30 ستمبر 1977 میں بھی 12 دن کا شٹ ڈاؤن کیا گیا ۔ 22 دسمبر 2018 سے آج کی تاریخ تک یہ 16 دن ہے ۔ اس سے قبل 2013 میں بھی 16 دن کا شٹ ڈاؤن ، 1978 میں بھی 17 دن اور سب سے زائد 15 دسمبر 1995 کو 21 دن کا شٹ ڈاؤن رہا ۔ جس نے امریکی معاشی رفتار میں گراوٹ لائی ۔ کساد بازاری نے ساری دنیا کی معیشت کو اتھل پتھل کر کے رکھدیا تھا ۔ سابق صدر بارک اوباما کے دور میں سب سے زیادہ سنگین شٹ ڈاؤن رہا جس سے امریکی معیشت کو 24 بلین ڈالر کا خسارہ ہوا تھا ۔ 1970 سے اب تک 20 مرتبہ شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں اور ان میں زیادہ تر ری پبلکن پارٹی کی حکومتوں میں ہی شٹ ڈاؤن ہوئے ہیں ۔ بل کلنٹن کے دور میں بھی شٹ ڈاؤن ہوا تھا ۔ اس مرتبہ ٹرمپ صدارت میں یہ شٹ ڈاؤن امریکہ کو کس تباہی کی طرف لے جائے گا یہ ناقابل قیاس ہے ۔ ساری دنیا کو امریکی حکومت پر کافی اعتماد ہوتا ہے ۔ ساری دنیا کی معیشت کی چابی امریکی معیشت سے مربوط ہے ۔ اس لیے بیشتر ملکوں نے اس شٹ ڈاؤن کو جلد ختم کرنے پر زور دیا ہے ۔ امریکی عوام کو بھی اس کی سنگینیوں کا احساس ہے ۔ اگر امریکہ میں شٹ ڈاؤن کی یہ کہانی یوں ہی جاری رہے گی تو امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے اقوام کا امریکہ سے اعتماد اٹھنے لگے گا ۔ ٹرمپ نظم و نسق کا یہ دور معاشی بنیادوں کو کمزور کرے تو اس غلطی کا خمیازہ طویل مدت تک بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے ۔ دنیا بھر میں مایوسی پھیل جائے گی ۔ اس لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے کو کچھ وقت کے لیے موخر کرتے ہوئے معیشت کو سنبھالنے کی ضرورت ہوگی ۔ صدر ٹرمپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ داخلی صورتحال کا بھی خیال رکھیں گے ۔ ملک کے اندر ہم آہنگی ، یگانگت ، عوام میں امید پیدا کرنا اور قومی اداروں کا دفاع کرنے کی پالیسیوں کو وضع کریں ناکہ شٹ ڈاؤن کے ذریعہ غیر یقینی صورتحال کو ہوا دی جاتی رہے ۔ اگر ٹرمپ کا موقف اسی طرح سخت رہا تو ان کے مقابل ایک نئی طاقت ابھرے گی جو امریکیوں کے لیے ٹرمپ کا متبادل ثابت ہوگی ۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو میکسیکو دیوار بنانے کے لیے 5-6 ارب ڈالر مطلوب ہیں ۔ اتنی بڑی رقم سے دیوار کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے ڈیموکریٹس کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ دیوار کے لیے کثیر فنڈنگ کے بجائے امریکی معیشت کو مستحکم بنانے اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے پروگراموں کو تیار کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ 2016 میں جن امریکیوں نے اپنے روزگار کو مستحکم بنانے کی نیت سے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا اب وہ اپنے مستقبل کو لے کر فکر مند ہیں تو یہ المیہ سے کم نہیں ۔۔