امریکی صدر ٹرمپ کی طالبان لیڈرملا عبدالغنی سے بات چیت

   

واشنگٹن۔ 4 مارچ ۔(سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک طالبان رہنما سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے کسی دہشت گرد گروپ کے رہنما سے غالباً یہ پہلی براہ راست گفتگو ہے۔ طالبان رہنما سے گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ آج طالبان رہنما کے ساتھ ہماری بہت اچھی بات چیت رہی۔ وہ جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مفادات مشترکہ ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بتایا کہ طالبان رہنما کے ساتھ ان کی تقریباً 35 منٹ تک بات چیت جاری رہی۔ انہوں نے بتایاکہ وہ افغانستان سے متعلق بات کر رہے ہیں لیکن ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ در اصل ہم نے طالبان لیڈر سے بہت اچھی گفتگو کی۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور وہ بھی تشدد کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ طالبان کے کسی لیڈر کے ساتھ بات چیت کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں تو ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’میں ایسا نہیں کہہ سکتا‘‘۔ واضح رہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کو اپنے ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ قبل ازیں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئیٹ کر کے بتایا تھا کہ امریکی صدر نے فون پر ملا عبدالغنی برادر سے بات چیت کی ہے۔ ملا عبدالغنی طالبان کے شریک بانی اور قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔ امریکہ اور ملا برادر نے ہفتہ 29 فروری کو دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت 10 مارچ سے افغانستان میں داخلی سطح پر مذاکرات کا آغاز ہونا ہے۔ تاہم مذاکرات سے قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے پانچ ہزار اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔ دوسری طرف غیر ملکی افواج 14 ماہ کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی جس کے بدلے میں طالبان افغانستان کی سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ گزشتہ انیس برسوں سے افغانستان میں جنگ میں مصروف امریکی افواج کی واپسی صدر ٹرمپ کی آئندہ صدارتی انتخابی مہم کا ایک اہم وعدہ ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں امریکی فوجی اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ دریں اثناء امن کی کوششوں کی راہ میں ایک نئی دشواری حائل ہوگئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے بات چیت ہونی چاہیے۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات سے قبل ان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے۔