ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ، نسل کشی کے جرائم میں امریکہ بھی برابر کا شریک
واشنگٹن ۔ 14 اکٹوبر (ایجنسیز) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدہ پر آمادگی کے اعلان کے ایک دن بعد، ایران کی وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ کی مذاکرات کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔ اس حوالے سے سخت ردِ عمل میں تہران نے واشنگٹن پر دشمنانہ اور مجرمانہ رویّہ اپنانے کا الزام عائد کیا۔ایرانی وزارتِ خارجہ نے منگل کے روز اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ کا وہ بیان جو انھوں نے اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) میں دیا ’’بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ‘‘ ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اسرائیلی حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے جو نسل کْشی کے جرائم سے ناپاک ہے … اسے (امریکہ) کسی پر اخلاقی الزام لگانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب کے دوران ایران سے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کیلئے اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا کہ ایران دہشت گردوں کی حمایت چھوڑ دے، اپنے پڑوسیوں کو دھمکانا بند کرے، اپنے مسلح ایجنٹوں کی مالی مدد ختم کرے اور آخرکار اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرے۔ انھوں نے ایران کی جانب مخاطب ہو کر کہا کہ ہم دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ بعد ازاں مصر کے دورے کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران مذاکرات کیلئے تیار ہو تو وہ اس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انھوں نے اعتماد کے ساتھ کہا کہ بالآخر ایران کے ساتھ ایک معاہدہ طے پا جائے گا کیونکہ ایرانی قیادت خود بھی یہ چاہتی ہے۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل، ایرانی عوام کے دشمن نہیں ہیں۔ ہم صرف امن کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ امریکہ نے گزشتہ جون میں اسرائیل کے ساتھ مل کر ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کی تھی جس کے سبب تہران کے ساتھ پانچ مرحلوں پر مشتمل بالواسطہ مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ مغربی ممالک کا الزام ہیکہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم ایرانی حکام اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ تہران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پْر امن اور شہری مقاصد کیلئے ہے۔