واشنگٹن : اگرامریکی سنٹرل کمانڈ کے علاقے میں امریکی فوج کی تعیناتی کے نقشے کو دیکھا جائے اور اگست کے وسط میں اس نقشے کا اس کے ہم منصب سے موازنہ کریں تو واضح طور پر خطے میں امریکی بحری جہازوں اور بحری بیڑوں کی تعداد میں زبردست کمی نظر آئے گی۔ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی افواج اپنے اڈوں پر واپس جائیں گی، کیونکہ بحرالکاہل کے علاقے میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کی بقا میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ چینی خطرہ امریکیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ مشرقی یورپ کے علاقوں میں روس کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے علاوہ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے کہ وہ ناٹو کے اندر یوروپ کے ساتھ کھڑا ہے تاکہ ان روسی خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ سے نکل رہا ہے، بلکہ یہ کہ عسکری ذرائع نے بتایا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے شراکت داروں اور اتحادیوں کو لاحق خطرات کو واضح طور پر دیکھ رہا ہے اور امریکہ ایرانی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اس خطے میں اپنی فوجیں تعینات کرنا اور ان کی تعداد بڑھانا چاہتا ہے۔اس خطے میں امریکی افواج اور امریکی ساز و سامان کے مکمل شائع شدہ نقشے اور اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔
،تاہم پنٹاگان اور سینٹرل کمانڈ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ امریکہ نے علاقے سے طیارہ بردار بحری بیڑے رونلڈ ریگن کے نکلنے اور بحریہ کے’مینٹیری‘ گروپ کے انخلاء کے بعد امریکا اب بھی 60 سے 70 ہزار امریکی فوجیوں کو سینٹرل کمانڈ کے تحت علاقے میں رکھتا ہے، اور ان فوجیوں کی اکثریت ان پانیوں اور خشکی کے علاقوں پر تعینات ہے جہاں پر ایرانیوں کے ساتھ کسی بھی محاذ آرائی کا خطرہ موجود ہے۔شاید صرف یہ تعداد امریکی فوجی موجودگی کی اہمیت پر زور دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔درحقیقت امریکہ اس خطے میں تھاڈ اورپیٹریاٹ قسم کے ریڈار اور میزائل شکن نظاموں کے جدید ترین نظام رکھتا ہے۔ حال ہی میں پانچویں بحری بیڑے میں ایک نیا ورکنگ گروپ قائم کیا گیا ہے جو ایرانی ڈرون کا مقابلہ کرنے کے لیے وقف ہے۔ان دفاعی نظاموں کا مقصد بنیادی طور پر ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کے خطرات کا مقابلہ کرنا اور ان کا مشن خلیج تعاون کونسل کے ممالک کو اپنے اہم علاقوں اور بندرگاہوں کی حفاظت میں مدد فراہم کرنا ہے۔