امریکی فوج نے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا، جنوبی کوریا کی خواتین کا الزام

   

سیئول، 10 ستمبر (یو این آئی)کوریائی خواتین امریکی فوجیوں کے لیے جسم فروشی پر مجبور کی گئی 100 سے زائد جنوبی کوریائی خواتین نے امریکہ پر بدسلوکی کا الزام لگاتے ہوئے ایک تاریخی مقدمہ دائر کر دیا ہے ۔ یہ بات وکلا نے بتائی ہے ۔ڈان میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق مورخین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ 1950 کی دہائی سے 1980 کی دہائی تک کئی ہزار جنوبی کوریائی خواتین ریاست کی سرپرستی میں چلنے والے کوٹھوں پر کام کرتی رہیں، جہاں وہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا سے بچانے کے لیے تعینات امریکی فوجیوں کو خدمات فراہم کرتی تھیں۔ 2022 میں جنوبی کوریا کی اعلیٰ عدالت نے قرار دیا تھا کہ حکومت نے غیر قانونی طور پر ایسے کوٹھے ‘قائم اور منظم کرکے چلائے ‘ جو امریکی فوج کے لیے تھے ، اور تقریباً 120 متاثرہ خواتین کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ گزشتہ ہفتے 117 متاثرہ خواتین نے ایک نیا مقدمہ دائر کیا ہے ، پہلی بار باضابطہ طور پر امریکی فوج پر الزام لگاتے ہوئے اور ان سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے مقدمے میں ہر متاثرہ خاتون کے لیے 10 ملین وون( 7 ہزار 200 ڈالر) معاوضہ طلب کیا گیا ہے ۔ جاپانی فوجیوں کے زیرِ استعمال مشہور ‘کمفرٹ ویمن’ کے برعکس، امریکی فوجیوں کے لیے کام کرنے والی ان خواتین کو نسبتاً کم توجہ ملی ہے ، کیوں کہ واشنگٹن جنوبی کوریا کا اہم اور دیرینہ اتحادی ہے ۔ مورخین کے مطابق، امریکی فوجی اڈوں کے قصبوں میں فوجی کوٹھوں سے جڑی معیشت (بشمول ریستوران، نائی کی دکانیں اور بارز جو امریکی فوجیوں کے لیے مخصوص تھیں) 1960 اور 70 کی دہائی میں جنوبی کوریا کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 25 فیصد تھی۔ 60 سالہ ایک مدعی خاتون کا کہنا ہے کہ میں اب بھی سر جھکا کر مشروب ڈالنے پر، مسکرانے سے انکار پر امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مار کھانے کو بھول نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف 17 سال کی تھیں جب انہیں دھوکے سے اس کام میں لگایا گیا، انہیں لگا تھا کہ وہ بار میں نوکری کرنے جا رہی ہیں، لیکن انہیں جنسی کام پر مجبور کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ ‘قرض’ کی وجہ سے جا نہیں سکتیں۔