ڈاکٹر اسلم عبداللہ
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں جب امریکہ کا دورہ کیا وہ غلط نہیں تھے۔ انہوں نے ہیوسٹن میں ہاوڈی مودی ریلی میں نہ صرف شرکت کی بلکہ صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی تائید و حمایت کرڈالی۔اس ریالی میں 99 فیصد ہجوم ہندو تھا اور انہوں نے پورے زور سے نکالی گئی آواز میں کہا تھا ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ وہ جانتے تھے کہ ٹرمپ اور ان کے اپنے آپ کو بالادستی کا اہل سمجھنے والے ری پبلکنس ہندی زبان سے واقف نہیں۔ دراصل ان کا پیام ہندوؤں کے لئے تھا اور بالکل صاف اور واضح بھی تھا کہ اگر آپ ہندو ہیں اور اعلیٰ ذات کی زیر قیادت آر ایس ایس کی سیاست میں یقین رکھتے ہوں تو پھر ٹرمپ کی تائید کریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہندو قوم پرست نے ایک سفید فام بالادستی کے خواہاں ٹرمپ کی تائید کیوں کی؟ خاص طور پر ان کی سیاسی مشیر برائے امریکی امور حُسن اتفاق سے تلسی گبارڈ ہوں، تلسی گبارڈ ہوائی سے تعلق رکھنے والی کانگریس کی ایک خاتون رکن ہیں جنہوں نے ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی مہمان کی حیثیت سے 14 دن گذارے ۔ یہ وہی تلسی گبارڈ ہیں جن کی شادی میں اس وقت کے ہندو فاشسٹ تنظیم آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری نے شرکت کی تھی۔اگر دیکھا جائے تو ری پبلکن یا ٹرمپ کی تائید و حمایت میں ہندو فاشسٹوں کے رہنے کی 6 اہم وجوہات ہیں۔
٭ سفید فام نسل پرست خود کو ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں کے بالکل قریب پاتے ہیں جو خود کو آریائی نسل قرار دیتے ہیں اور اس ضمن میں ان کے دعوے بہت بلند ہوتے ہیں۔
٭ ٹرمپ یقینا 2019 میں سب سے آگے تھے اور 2020 کے صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی کے بہت زیادہ امکانات پائے جاتے تھے۔
٭ ٹرمپ نے بعض مسلم ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر جو پابندی عائد کی تھی اس سے بھی ہندوتوا فاشسٹ فورس کے لئے امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی تھی۔ ویسے بھی ان ہندو فاشسٹ فورس کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
٭ اسرائیل جو امریکہ کا ایک قریبی حلیف ہے ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں اور فوج و پولیس کو تربیت فراہم کررہا ہے تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری تحریکوں پر قابو پایا جاسکے اس طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک مضبوط مثلت بن گیا کیونکہ تینوں کی حکومتیں قوم پرستی کا دعویٰ کرتی رہی۔
٭ امریکہ میں ری پبلکن کی حمایت یافتہ ہمہ قومی صنعتی اداروں کی جانب سے اس بات کا پورا امکان پایا جاتا تھا کہ وہ ہندوستان میں اپنے تجارتی مفادات کے فروغ کی خاطر حقوق انسانی کی پامالیوں کو نظرانداز کردیں۔
٭ امریکہ کے اہم ترین شعبوں میں آئی ٹی اور طبی پیشہ وارانہ ماہرین کی موجودگی نے ہندوتوا کی فاشسٹ فورس میں اس بات کا اعتماد پیدا کیا کہ اس سے امریکی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر اثر پڑے گا اور اس کے اثرات سے آر ایس ایس کو فائدہ حاصل ہوگا۔
تاہم ڈونالڈ ٹرمپ کی شکست نے فاشسٹوں کے تمام منصوبوں اور اندازوں کو خاک میں ملا دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ان فاشسٹ فورس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے اپنا B پلان بھی تیار کرلیا تھا کیونکہ امریکی کانگریس میں ان کا ایک آدمی تھا اور وہ الینوائے کا رکن کانگریسی تھا جس کے ذریعہ وہ اپنے حق میں آواز اٹھانے کے خواہاں تھے۔ ان فاشسٹ فورس کو اس بات کی بھی امید تھی کہ اریزونا اور ٹیکساس سے بھی مزید چند ڈیموکریٹک نمائندوں کو بھی وہ استعمال کریں گے لیکن ان تمام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔فاشسٹ فورس نے جوبائیڈن کی مہم چلانے والوں سے بھی رابطہ بنائے رکھا اور اس کام کے لئے اوباما انتظامیہ میں اثر و رسوخ رکھ چکے ڈیموکریٹس کو استعمال کیا گیا ان میں سے کچھ وشواہندو پریشد یا آر ایس ایس کے ورکرس تھے جنہوں نے آر ایس ایس کی مادر مستعار ایچ ایس ایس کے ذریعہ ان ہندو تنظیموں سے تعلق قائم کیا تھا۔
ہندوستان فاشسٹ دراصل اپنے فائدہ کے لئے امریکی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ حساس معلومات اکٹھا کی جائیں تاکہ عالمی اسلح پر اجارہ داری کو فروغ دیا جاسکے۔ امریکہ میں ہندوتوا فاشسٹ اصل میں امریکی انتظامیہ کو ہندوستانی حکومت کی جانب سے اختیار کردہ اقلیت دشمن پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔بالغرض ہندوتوا فاشسٹ اہم عہدوں پر فائز بھی کئے جاتے ہیں تو وہ 2022 میں ہونے والے کانگریس کے انتخابات میں مالیہ فراہم کرتے ہوئے اور لابی تیار کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کرسکیں۔ تاہم فاشسٹ سفید فام نسل برست کیمپ میں اپنے ساتھی فاشسٹوں کے ساتھ بڑا اطمینان محسوس کریں گے سفید فام نسل پرست لیڈر Steve Banon اور ہندوستانی سفیر کی ملاقات ہندتوا اور امریکی سفید فام قوم پرستوں کے درمیان بڑھتے تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ ملاقات ہندوتوا اور اس کی تنظیموں کے لئے ایک بہت بڑا پیام ہے کہ وہ سفید فام قوم پرستوں کو پورے دل سے قبول کریں اور ان کے ایجنڈہ پر کام کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ دیکھیں گے 2020 میں ہندوتوا کے کارکن بڑی تعداد میں ری پبلکنس میں شامل ہو جائیں گے۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کی موجودگی داخلی سطح سے ترقی پسند تحریک کو نقصان پہنچاسکتی ہے کیونکہ ان لوگوں کا منصوبہ امریکی مفادات کے لئے کام کرنا نہیں بلکہ اعلیٰ ذات کے مفادات کی نگہبانی کرنا ہے جو تو آریائی نسل کی بالادستی میں یقین رکھتے ہیں۔