ممبئی ۔8 اگست (ایجنسیز) ہندی کے عظیم ادیب بھیشم ساہنی کہتے ہیں کہ وقت بدلتا ہے لیکن سچ نہیں بدلتا۔ رجنی کانت کی فلم قلی (قلی دی پاور ہاؤس) کی کہانی ایک بار پھر اس مثال کو پیش کرتی ہے۔ رجنی کانت کی فلم قلی نے امیتابھ بچن کی فلم قلی کی یادوں کے دریچے کھول دیے ہیں۔1983 میں امیتابھ کی فلم قلی آئی۔ ریلوے اسٹیشن پر پورٹر، سرخ لباس پہنے، بازو پر لائسنس کا بیج، سر پر بھاری بریف کیس، تولیے سے پسینہ پونچھتا، چلتی ٹرینوں میں چھلانگ لگانے والا پورٹر، فٹ اوور پر سوار پورٹ کو پکڑکر جھولتا، فٹ اوورکا بوجھ اٹھا کر چلتا ہے۔ اسے یاد کرتے ہوئے ذہن میں ایک خاکہ بنتا ہے۔ گانا مشہور ہوا ، ساری دنیا کا بوجھ ہم اٹھا تے ہیں… لوگ آتے ہیں لوگ جاتے ہیں، ہم یہاں پرکھڑے رہتے ہیں.. پھر ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں پرکام کرنے والے پورٹرزکا یہ گروپ ترانہ بن گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رجنی کانت خود بالی ووڈ سوپر اسٹار امیتابھ بچن کے بہت بڑے مداح ہیں۔ وہ کئی بار اپنے بیانات میں انہیں اپنا آئیڈیل بتاچکے ہیں۔ کیا اتفاق ہے کہ اسی سال امیتابھ بچن کی قلی ریلیز ہوئی، رجنی کانت ان کے ساتھ ہندی میں اندھا قانون میں نظر آئے۔ اس فلم میں امیتابھ اور رجنی کانت پہلی بار ایک ساتھ نظر آئے تھے۔ اس کے بعد کمل ہاسن بھی قافلہ میں شامل ہوئے۔ وقت نے 1983 کے قلی کے دور سے 2025 کے قلی کے دور تک ایک لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ تقریباً بیالیس سال گزر چکے ہیں۔ ملک اور دنیا میں کیا کچھ نہیں بدلا۔ 25 پیسے کا سکہ غائب، پوسٹ کارڈ اور ٹیلی گرام بند ہو ئے۔ ہم 5 جی کے دور میں ہیں اور اے آئی کا خیر مقدم کر رہے ہیں، لیکن دونوں فلموں کی کہانی بتاتی ہے کہ استحصال کی بنیادی سچائی نہیں بدلی۔