حیدرآباد۔21ستمبر(سیاست نیوز) ممتازمصنف اور مجاہد اُردو امیتابھ سنگھ باگھیل کی تصنیف ’’زندگی سے ڈرتے ہو‘‘ کی رسم اجرائی کے موقع پر ایک ادبی نشست عابد علی خان سنٹینیری ہال ‘ دفتر روزنامہ سیاست پر منعقد ہوئی۔ شہر حیدرآباد کی سرکردہ شخصیتوں اور ادبی اداروں کے علمبرداروں نے شرکت کی ۔ صحافی ریاض احمد نے کاروائی چلائی۔کتاب کی رسم اجراء سے قبل ن میم راشدؔ کی نظموں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اُردو شاعری کو رسم الخط تک محدود نہیں رہنا چاہئے اور یہی وجہہ ہے کہ ہم نے ن میم راشدؔ کی 69نظموں پر مشتمل مجموعہ شائع کیا جس کا عنوان’’ زندگی سے ڈرتے ہو‘‘ رکھا ہے۔امیتابھ سنگھ باگھیل نے مزیدکہاکہ ن میم راشدؔ اُردوادب کے ایک مایہ ناز شاعر تھے مگر انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیںہوئی جو اس دور کے شعراء فیض احمد فیضؔ اور ترقی پسند شعراء کو نصیب ہوئی ہے ۔ حالانکہ ن میم راشدؔ نے انفرادی شاعری کو چھوڑ کر کائنات کو اپنی شاعری میںپیش کرنے کا سلیقہ جانتے تھے ۔اس موقع پر انہوں نے ن میم راشدؔ کی نظموں میں سے ایک نظم حسن کوزا بھی سنائی ‘ سامعین کی خواہش پر دیگر نظمیں بھی پیش کیں۔ڈاکٹر مجید بیدار کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے امیتابھ سنگھ باگھیل نے کہاکہ ن میم راشدؔ کی شاعری علامتی نہیں تھی بلکہ عشق کا عنصر ان کی شاعری میں واضح دکھائی دیتا ہے ۔ باگھیل نے اُردو شاعروں اور سامعین کی کم ہوتی تعداد پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ بہت ساری انجمنیں اس پر کام کررہی ہیں مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیںہورہی ہے ۔ انہوںنے سامعین کی جانب سے کی گئی خواہش پر مخدوم محی الدین کی نظم چارہ گر بھی سنائی۔ اس کے علاوہ حبیب جالیبؔ کی مشہور نظم ایسے دستور کو صبح بے نور کو میںنہیںجانتا میں نہیںمانتا بھی سنائی۔جان ایلیاؔ‘فیض احمد فیضؔ کی نظموں پر خوب داد حاصل کی۔کتاب کی رسم اجراء کے بعد مشاعرہ منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر فاروق شکیل‘ عبدالعلیم فلکی‘بشیر خالد‘قاضی فاروق عارفی نور اللہ ‘ سید اسماعیل ذبیح اللہ ‘ رفیعہ نوشین نے کلام سنایا۔ کتاب کی رسم اجرائی کے موقع پر جناب افتخار حسین ‘ڈاکٹر فاضل حسین پرویز‘ریاض احمد‘اودیش رانی باوا‘ سارہ ماتھیوز‘ رفیعہ نوشین ‘ اپرنا کاندا‘ عبدالعلیم فلکی‘ زاہد فاروقی موجود تھے۔