امیت شاہ ، جموں و کشمیر کس منہ سے گئے

   

پی چدمبرم

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گزشتہ ہفتہ جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔ 5 اور 6 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کی منسوخی ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے (بشمول لداخ) اور اس کے موقف کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں محدود کرنے کے اشتعال انگیز اور متنازعہ اقدامات کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ جموں و کشمیر تھا۔ مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا تھا جس کے نتیجہ میں وادی میں کافی برہمی پیدا ہوئی (حکومت کے ان فیصلوں کی توثیق کیلئے پارلیمنٹ نے ایک قانون بھی منظور کیا)
حیرت کی بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور ریاست کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد دو برسوں تک اُمیت شاہ نے وادی کا دورہ نہیں کیا حالانکہ اُس دوران کئی مرکزی وزراء نے ان مرکزی زیرانتظام علاقوں کے دورے کئے اور ان موقعوں پر عوام نے وزراء کا بری طرح بائیکاٹ کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے مرکزی وزیر دفاع نے اپنے دوروں کو دفاعی فورسیس کے زیرکنٹرول اسٹیشنوں اور پوسٹس تک محدود رکھا تھا۔
مرکزی حکومت نے بحیثیت مجموعی دونوں مرکزی زیرانتظام علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹننٹ گورنرس (LG) اور اعلیٰ عہدیداروں پر چھوڑ دیا، پھر اس وقت کے گورنر (مسٹر ستیہ پال ملک) 31 اکتوبر 2019ء تک انچارج برقرار رہے جب تک کہ جموں و کشمیر تشکیل جدید ایکٹ 2019ء نافذالعمل نہیں ہوا۔ پہلے لیفٹننٹ گورنر مسٹر جی سی مرمو نے 7 اگست 2020ء تک 9 ماہ خدمات انجام دیں۔ موجودہ لیفٹننٹ گورنر (مسٹر منوج سنہا) کو اس عہدہ پر فائز ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ کو اپنے دورہ جموں و کشمیر کے دوران وہاں کوئی قیادت بہ مشکل نظر آئی ہوگی۔
حالات معمول پر آنے کے دعوے
مرکزی وزیر داخلہ کا دورہ کئی ایک دعوؤں سے پُر رہا ۔ جس میں سب سے بڑا دعویٰ یہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر میں حالات بالکل نارمل ہیں۔ خود وزیر داخلہ نے یہ دعویٰ کیا، لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کتنا اور کیسے ’’نارمل ہے‘‘۔ وزیر داخلہ کے دورہ کے موقع پر کم از کم 700 افراد کو حراست میں لیا گیا اور ان میں سے بعض کو انتہائی سخت پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت گرفتار کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ بعض گرفتار شدگان کو جموں و کشمیر کے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ حیرت اور دلچسپی کی ایک اور بات آپ کو بتا دوں کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) نے مزید 8 افراد کو وادی میں وزیر داخلہ کے موقع پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی سازش رچنے کے شبہ میں گرفتار کرلیا۔ اس طرح سازش رچنے کے شبہ میں گرفتار افراد کی تعداد 13 ہوگئی۔ وزیر داخلہ کے دورہ کے موقع پر ساری وادی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوچکی تھی۔ جن راستوں سے وزیر داخلہ کا گزر ہوا، وہاں پر فوج نے اسنائپرس متعین کئے تھے۔ دوسری طرف سرینگر میں ٹریفک تحدیدات بھی عائد کئے گئے ۔ یہاں تک کہ موٹر سائیکل رانوں کی بہت ہی سختی کے ساتھ تلاشی لی گئی اور انہیں سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا (ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیر داخلہ کے دورہ کے موقع پر سرینگر میں ٹووہیلرس کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی) اس دورہ کے موقع پر وزیر داخلہ نے جموں و کشمیر میں کرفیو اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن اور پابندیوں کے نفاذ کو یہ کہتے ہوئے منصفانہ قرار دیا کہ اگرچہ یہ ایک کڑوی گولی ہے لیکن اس کے ذریعہ کئی زندگیوں کو بچایا گیا۔
جموں و کشمیر کی اقتصادی حالت کے بارے میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ جموں و کشمیر سب سے زیادہ فی کس گرانٹ موصول کرتا ہے، اس کے باوجود ریاست میں غربت میں کوئی کمی نہیں آئی (حکومت کے ڈیٹا کے متضاد 2019ء میں جموں و کشمیر میں غربت کا تناسب 10.35% تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ ملک کی آٹھ بہترین ریاستوں میں جموں و کشمیر کا شمار کیا گیا۔ جبکہ قومی اوسط 21.92% درج کیا گیا) وزیر داخلہ نے یہ بھی سوال کیا کہ 5 اگست 2019ء سے پہلے کیا جموں و کشمیر کا نوجوان وزیر فینانس یا ملک کا وزیر داخلہ بننے کا خواب دیکھ سکتا تھا (شاید وہ بھول گئے ہوں گے کہ 1989-90ء جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے مفتی محمد سعید ہندوستان کے وزیر داخلہ تھے) وزیر داخلہ نے بڑے فخر سے یہ بھی کہا کہ وادی میں دہشت گردی اور سنگباری کا خاتمہ ہوچکا ہے (جو معتبر ڈیٹا جسے ساؤتھ ایشیا ٹیراریزم پورٹل نے پیش کیا ہے، اس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 2014ء اور2021ء کے درمیان 306 عام شہری، 523 سکیورٹی فورسیس کے اہلکار اور 1428 دہشت گرد ؍ انتہا پسند مارے گئے۔ درحقیقت اکٹوبر 2021ء پچھلے دو برسوں میں انتہائی اہم مہینہ تھا)۔
اپنے دورہ کے آخری دن وزیر داخلہ نے اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈاکٹر فاروق صاحب نے مشورہ دیا کہ میں پاکستان سے بات کروں، اگر میں بات کروں گا تو صرف جموں و کشمیر کے عوام اور اس کے جوانوں سے بات کروں گا، کسی اور سے نہیں۔ وزیر داخلہ نے اس دورہ میں کسی بھی سیاسی جماعت کے قائدین سے ملاقات نہیں کی بلکہ انہوں نے تین خاندانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان تین خاندانوں نے جموں و کشمیر کو تباہ کردیا۔ وہاں کوئی منتخب مقننہ نہیں، ایسے میں ان کے کسی لیجسلیچر سے ملاقات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جموں و کشمیر میں کام کرنے والی معزز سماج کی کسی تنظیم نے بھی رضاکارانہ طور پر امیت شاہ سے ملاقات نہیں کی۔ اگر مرکزی وزیر داخلہ کسی سے بھی بات چیت کیلئے تیار نہیں تھے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ کوئی دوسرے بھی ان سے بات چیت کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ بات چیت تو صرف اور صرف وزیر داخلہ اور اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان دربار میں ہوئی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کہ مودی حکومت کی جموں و کشمیر پالیسی دراصل ’’فاتح کا انصاف‘‘ کی بنیاد پر ہے۔ یہ اصطلاح فاتح طاقت کی جانب سے ناکام طاقتوں کے خلاف اختیار کی جانے والی غیرقانونی پالیسیوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے چنانچہ جموں و کشمیر کو انتہائی خفیہ انداز میں رچی گئی سازش اور غیردستوری قانون کے ذریعہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا۔
یہی وہ معمول کے حالات اور حکمرانی ہے جو مودی حکومت جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام کو پیش کررہی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک چیز واضح ہے کہ اس قسم کے معمول کے حالات پر واپسی اور حکمرانی جموں و کشمیر میں سیاسی حل کا باعث نہیںبنے گی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ مودی حکومت کو اس بات کا یقین ہے کہ جموں و کشمیر میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ، اور اگر کوئی مسئلہ تھا بھی تو اُسے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے اسے حل کردیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی حکومت تاریخ کو نظرانداز کرتی ہے تو پھر کوئی بامعنی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو جنگیں لڑی گئیں ، وہ دراصل بات چیت کی ناکامی کا نتیجہ تھی۔ جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسیس کی غیرمعمولی تعداد کو متعین کیا گیا ہے، قانون کی حکمرانی مسلسل روبہ زوال ہے اور وزیر داخلہ لوگوں کے دل جیتنے میں ناکام رہے۔ دل یوں ہی نہیں جیتے جاتے ۔لوگوں کے دل جیتنے کیلئے جمہوری و دستوری حقوق سے انکار کی راہ ترک کرنی ہوگی۔