راہول گاندھی … سنسد سے سڑک تک عوام کی آواز
LOP کا کامیاب ایک سال … بی جے پی اور آر ایس ایس میں بھونچال
بہار میں ووٹ بندی … NRC پر عمل آوری؟
رشیدالدین
’’سنسد سے سڑک تک عوام کی آواز‘‘ ملک میں ظلم و ناانصافی کے خلاف برسر پیکار ایک شخصیت نے نریندر مودی حکومت کی نیند حرام کردی ہے ۔ کشمیر سے کنیا کماری تک بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے والے عوامی رہنما نے ہر ہندوستانی کے دل میں جگہ بنالی ہے۔ پسماندہ اور کمزور طبقات گزشتہ 75 برسوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ ایسے میں جس کی جتنی آبادی اتنی حصہ داری کا نعرہ لگاکر مظلوموں کی آواز بن کر سماجی انصاف کی راہ ہموار کردی ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی مخالفت اور تنقیدوں کی پرواہ کئے بغیر سماج کے ہر طبقہ کو موتیوں کی طرح کسی ہار میں پرونے کا کام جس شخصیت نے انجام دیا ، وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ کانگریس قائد راہول گاندھی نے لوک سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن (LOP) کے طور پر ایک سال مکمل کرلیا ہے۔ ایک سال کی مدت میں راہول گاندھی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ عوام کیلئے جیتے ہیں اور آخری سانس تک عوام کو انصاف دلانے اور ملک کو نفرت سے نکال کر پیار و محبت کے گہوارہ میں تبدیل کرنے کا مشن جاری رکھیں گے ۔ راہول گاندھی دراصل پنڈت جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی سیاسی وراثت کے امین ہیں۔ اپنے پرکھوں کے راستہ پر چلتے ہوئے سچائی اور اصول پر سمجھوتہ کرنا نہیں سیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اور خاص طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس ان سے خوفزدہ ہیں۔ راہول گاندھی کی عوام کیلئے یہ جدوجہد محض ایک سال پر محیط نہیں بلکہ راجیو گاندھی کی ملک کیلئے شہادت کے بعد سے وہ اپنی ماں سونیا گاندھی کے قدم سے قدم ملاکر سیاست کا درس حاصل کرتے رہے۔ سونیا گاندھی نے اقتدار اور کرسی کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کو 10 برس تک وزارت عظمیٰ پر فائز رکھا تاکہ ملک کی ترقی اور عوام کی بھلائی ہو۔ اگر وہ چاہتیں تو خود وزیراعظم بن سکتی تھیں اور راہول گاندھی کو مرکزی وزارت میں شامل کرسکتی تھیں لیکن انہوں نے راہول گاندھی کو مشکلات اور چیلنجس کی بھٹی میں تپاکر کندن بنادیا۔ مرکز میں 2014 میں بی جے پی حکومت کی تشکیل اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی راہول گاندھی سمجھ گئے کہ اب ان کے حقیقی امتحان کا وقت آچکا ہے اور عوام کو ان کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں راہول گاندھی نے اقتدار کے حصول کو کبھی بھی اپنا مقصد اور مشن نہیں بنایا بلکہ سیکولرازم ، سوشلزم اور دستور کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے ملک کی بنیادوں کو مستحکم کیا ، جنہیں بی جے پی اور آر ایس ایس نے کمزور کردیا تھا۔ الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مدد سے بی جے پی کو دو میعادوں کیلئے آسانی سے اقتدار حاصل ہوا لیکن لیڈر آف اپوزیشن کے عہدہ سے محرومی کے باوجود راہول گاندھی نے سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو متحد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ راہول گاندھی کی محنت رنگ لائی اور 2024 میں بی جے پی اکثریت سے محروم ہوگئی اور اسے بیساکھیوں کے سہارے حکومت تشکیل دینی پڑی ۔ راہول گاندھی کو لوک سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن (LOP) کا عہدہ حاصل ہوا۔ لیڈر آف اپوزیشن کی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے راہول گاندھی نے اپنی ساری تونائی جھونک دی۔ لیڈر آف اپوزیشن کے طورپر ایک سال میں راہول گاندھی ہر غریب ، مظلوم اور سماجی انصاف سے محروم شخص کی آواز بن گئے ۔ سنسد سے لے کر سڑک تک وہ عوامی مسائل پر مودی حکومت کو گھیرنے لگے۔ ایک سال میں راہول گاندھی نے 16 ریاستوں کا دورہ کیا ، 18 پریس کانفرنسوں سے خطاب کیا جبکہ نریندر مودی نے 11 برسوں میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی کیونکہ وہ سوالات کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ لوک سبھا میں 16 مرتبہ راہول گاندھی کی گھن گرج سنائی دی اور 116 سے زائد عوامی جلسوں سے ملک کے کونے کونے میں خطاب کیا۔ لیڈر آف اپوزیشن کی حیثیت سے راہول گاندھی کے کئی کارنامے ہیں اور دو اہم کامیابیاں منی پور میں صدر راج کا نفاذ اور قومی سطح پر ذات پات پر مبنی مردم شماری کیلئے مودی حکومت کا اعلان ہیں۔ منی پور میں نسلی تشدد کے باوجود مرکزی حکومت تماشائی بنی رہی اور صدر راج کے نفاذ کے بغیر ہی صورتحال کو قابو میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ راہول گاندھی گڑبڑ زدہ منی پور پہنچے اور متاثرین سے ملاقات کرتے ہوئے انصاف کی جدوجہد کا یقین دلایا۔ راہول گاندھی کے دباؤ کے آگے مودی حکومت کو جھکنا پڑا اور صدر راج نافذ کیا گیا۔ بھارت جوڑو یاترا میں راہول گاندھی نے سماجی انصاف کیلئے ملک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبہ پر بی جے پی قائدین مذاق اڑا رہے تھے لیکن جب ملک کے تمام دلت، آدیواسی ، پسماندہ طبقات اور اقلیت راہول گاندھی کے قافلہ میں شامل ہوگئے تو مودی حکومت کو طبقاتی مردم شماری کا اعلان کرنا پڑا۔ بیروزگاری اور مہنگائی پر راہول گاندھی نے مودی حکومت کا کچھ ایسا تعاقب کیا کہ اسے اپنے قریبی صنعتی گھرانوں کی کھلم کھلا تائید چھوڑنی پڑی ۔ راہول گاندھی نے مودی حکومت کو ہمیشہ سوالات کے گھیرے میں رکھا ۔ انہوں نے اپنی بیباک نمائندگی سے ثابت کیا کہ وہ نہ کسی کو ڈراتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ راہول گاندھی نے عوام کو ’’ڈرو مت اور ڈراؤ مت‘‘ کا نعرہ دیا اور اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ مخالفین ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔ مودی اور ان کے ساتھیوں نے راہول گاندھی کو اربن نکسل کہا اور پاکستان پرست ہونے کا الزام عائد کیا لیکن راہول گاندھی ان سب کی پرواہ کئے بغیر اپنی دھن میں مست ہیں۔ بھارت جوڑو یاترا میں انہوں نے جس ہندوستان کو دیکھا ، آج ہر جگہ اسی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر حکومت کی پالیسیاں غریبوں کے حق میں نہ ہوں تو پھر ملک کے بجٹ کی کیا ضرورت ہے۔ ملک کے اہم اعلیٰ عہدیداروں کی تعداد 90 ہیں جو ملک کا بجٹ تیار کرتے ہیں۔ ان میں دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں کی تعداد محض تین ہے جنہیں بجٹ میں محض 6 فیصد کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ دستور ہند سے سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ حذف کرنے کی آر ایس ایس اور بی جے پی کی کوششوں کی راہ میں راہول گاندھی اہم رکاوٹ بن چکے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ آئندہ عام انتخابات تک مودی حکومت کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر جائے گا اور کانگریس زیر قیادت انڈیا الائنس حکومت کی تشکیل کے امکانات روشن رہیں گے۔
نوٹ بندی کی طرح الیکشن کمیشن بہار میں ’’ووٹ بندی‘‘ کی تیاری کر رہا ہے ۔ اسمبلی انتخابات سے قبل فہرست رائے دہندگان کی از سر نو تیاری کی مہم کا اچانک آغاز کیا گیا جس کا مقصد درپردہ طور پر بی جے پی کی کامیابی میں مدد کرنا ہے۔ جس طرح مہاراشٹرا میں الیکشن کمیشن نے فہرست رائے دہندگان میں الٹ پھیر کے ذریعہ بی جے پی اور اس کی حلیفوں کی کامیابی کو یقینی بنایا تھا، اسی طرح بہار اور مغربی بنگال اس کے نشانہ پر ہیں۔ جو کام مرکزی حکومت نہیں کرسکتی ، اسے الیکشن کمیشن کے ذریعہ مکمل کرانے کی منصوبہ بندی ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن نے جمہوریت کا پرچم اٹھالیا ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی شناخت آزادانہ اور منصفانہ چناؤ ہے۔ الیکشن کمیشن نے جمہوریت کے اس عمل کو شفاف بنانے کے نام پر گاؤں سے لیکر شہروں تک بہار میں ہر شخص کو مصروف کردیا ہے۔ جن ہاتھوں میں جمہوریت کا پرچم ہے، ان کا تقرر کس نے کیا ہر کوئی جانتا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنرس کے تقررات میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے رول کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ ظاہر ہے کہ جنہوں نے جمہوریت کا پرچم الیکشن کمیشن کے حوالے کیا، فہرست رائے دہندگان کی تیاری کے ذریعہ برسر اقتدار پارٹی کی مدد کرنا ان کا اخلاقی فرض بن چکا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن جمہوریت کا پرچم کس کے حوالے کرے گا۔ بہار میں 2024 میں لوک سبھا انتخابات ہوئے تھے لیکن الیکشن کمیشن کو اس وقت کی فہرست رائے دہندگان قبول نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے 2003 کو معیار بنایا ہے اور اس وقت کی فہرست رائے دہندگان میں جن کے نام شامل ہیں، انہیں رائے دہندہ قبول کیا جائے گا۔ دیگر شہریوں کو نئی فہرست میں نام شامل کرنے کیلئے طرح طرح کے دستیاویزات پیش کرنے ہوں گے ۔ بہار کی 8 کروڑ کی آبادی میں محض 3.5 کرؤڑ ایسے ہیں جن کے نام 2003 کی فہرست میں موجود ہیں۔ جبکہ باقی تقریباً 4.5 کروڑ رائے دہندوں کو اپنی پیدائش کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ والدین کے برتھ سرٹیفکٹ داخل کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ تعلیمی طور پر پسماندہ ریاست بہار جہاں 20 فیصد سے زائد افراد روزگار کیلئے دیگر ریاستوں کا رخ کرچکے ہیں، وہ یہ دستاویزات کہاں سے پیش کریں گے۔ دراصل مودی حکومت کی سازش یہ ہے کہ اقلیتوں اور دلتوں کے ووٹ کم کردیئے جائیں تاکہ بی جے پی کو فائدہ ہو۔ دوسرے معنوں میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ NRC پر عمل آوری کی منصوبہ بندی ہے۔ سرٹیفکٹ پیش نہ کرنے پر بنگلہ دیشی قرار دے کر مسلمانوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔ فہرست رائے دہندگان کی تیاری محض ایک بہانہ ہے جبکہ مسلمان اصل نشانہ ہیں۔راہول گاندھی کی جدوجہد پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
امیر شہر سے تکرار کر کے دیکھتے ہیں
خراج دینے سے انکار کر کے دیکھتے ہیں