پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
انتخابات میں بحیثیت امیدوار حصہ لینا یا الیکشن لڑنا ایک مشکل کام ہے لیکن ایک طے شدہ راستہ پر چلنا، کسی امیدوار کی جانب سے الیکشن کروانا ایک مشکل اور نازک کام ہے جبکہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ریاستی الیکشن کے نگران کی حیثیت سے انتخابی عمل کی نگرانی کرنا یا اس پر نظر رکھنا بہت ہی پیچیدہ کام ہے جس میں کئی ایک باالفاظ دیگر مختلف کام کرنے پڑتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ایک الیکشن ایک فیصلہ کن فٹبال میچ کی طرح ہوتا ہے جس میں ایک کوچ فاتح ہوتا ہے اور حریف کوچ شکست سے دوچار ہو جاتا ہے۔ میری کہانی 1984 کے لوک سبھا انتخابات میں میری اپنی امیدواری سے شروع ہوتی ہے۔ میں نے اب تک 8 لوک سبھا انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے 7 میں کامیابی میرے حصہ میں آئی میں نے اس سے قبل کئی انتخابات کروائے (یقنی انتخابات کی نگرانی کی) اور اپنے انتخابات کے بعد بھی کئی انتخابات کی نگرانی کی کیونکہ پارٹی نے مجھے یہ ذمہ داریاں تفویض کی تھیں۔ آپ کو بتادوں کہ میں ہنوز میرے اپنے ضلع میں ہونے والے انتخابات کی وسیع تر نگرانی کرتا ہوں ان پر گہری نظر رکھتا ہوں۔
وقت بدل چکا ہے : ایک وقت ایسا بھی تھا جب انتخابات میں کامیابی کے لئے چہرہ، لفظ یا اشارہ کافی ہوتا تھا اب ایسے حالات نہیں رہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ایک امیدوار کسی ذات کے لیڈر یا لیڈروں کی تائید و حمایت حاصل کرلیتا تو اس ذات کے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنا بڑا آسان ہو جاتا، اس ذات کے ماننے والوں کی اکثریت اپنے لیڈر یا لیڈروں کی ہدایت پر بلا چوں و چراں عمل کرتی، اب ایسا نہیں رہا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب انتخابات میں انتخابی منشور کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ان کا استعمال قصہ پارینہ بن چکا ہے، ان کی جگہ انتخابی مہم میں نئے انتخابی اسلحہ اور گولہ بارود نے لے لی ہے جن میں سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن اڈورٹائزمنٹ، فرضی و جعلی خبریں اور ایک ذلت آمیز پریکٹس جسے عام طور پر Paid News کہا جاتا ہے شامل ہیں۔ شکر ہیکہ اخلاقی اقدار میں بھیانک گراوٹ کے اس دور میں بھی چند اخبارات ایسے بھی ہیں جنہوں نے سچائی دیانتداری کے رجحان کو برقرار رکھا ہے۔ مجھے خدشہ ہیکہ اخبارات آئندہ دس برسوں میں جب انتخابات ہوں گے تب غیر متعلق ہو جائیں گے، یعنی انتخابی مہم میں اخبارات کی اہمیت باقی نہیں رہے گی، گزشتہ 50 برسوں سے میں خود انتخابات میں ہور ہی اور ہوچکی تبدیلیوں کا شاہد ہوں بعض ایسی چیزیں ہیں جو مسلسل واقع ہو رہی ہیں اور پائیدار رہیں گی۔ اگر دیکھا جائے تو ایک سیاسی پارٹی میں چیزیں مسلسل واقع ہو رہی ہیں باالفاظ دیگر پائیدار ہیں وہ اس حسب ذیل ہیں۔
سٹی، ڈسٹرکٹ اور سب آرڈینیٹ کمیٹیاں: اس ضمن میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگا کہ ایک سیاسی جماعت کی صرف قومی کمیٹی ہی کافی نہیں ہے۔ ویسے بھی جو قومی کمیٹی ہوتی ہے اس کا اجلاس تین ماہ میں ایک بار ہوسکتا ہے اور ان حالات میں سٹی، ڈسٹرکٹ، بلاک، وارڈ اور ویلیج کمیٹیاں ضروری ہیں اور ان کمیٹیوں کا دن میں چوبیس گھنٹے مصروف رہنا بھی لازمی ہے۔ آپ اس سیاسی جماعت کے بارے میں کیا کہیں گے جس نے کئی برسوں سے سٹی، ڈسٹرکٹ یا سب آرڈینیٹ کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں نہیں لائی؟ میں تو یہ کہوں گا کہ سیاسی جماعت کی بقاء ریاست میں ایک تصوراتی نظریہ کی حیثیت سے ہی ہے۔
اکثر عام سیاسی جماعتیں، پارٹی کی مجالس عاملہ کی رکنیت اور نمائندگی کے معاملہ میں مشمولیاتی عمل کی تشہیر و ترویج کرتی ہیں، ہاں یہ سیاسی جماعتیں امیداروں کے انتخاب کے دوران غلطیوں کا ارتکاب کرتی ہیں اور کامیابی کے امکانات کی آڑ میں یا کامیابی کے امکانات کے بہانے سیاسی جماعتیں اور ان کے اہم لیڈران ان امیدواروں کو پارٹی امیدوار بنانے سے گریز کرتے ہیں جو حریف گروہ یا ایک مخصوص ذآت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے لئے یہ بہانہ تراشا جاتا ہے کہ ایک مخصوص ذات سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو میدان میں اتارنے سے دوسری مخصوص ذات کے لوگ اس کی سپورٹ نہیں کریں گے یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مخصوص ذات کے امیدوار کو ٹکٹ دینے سے اُس ذات کے لوگ حریف پارٹی کی تائید و حمایت کریں گے۔
پارٹی میں ڈسپلن کا نفاذ : آپ اور اہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات کے وقت ہر پارٹی میں ڈسپلن شکنی کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں، پارٹی کے امیدوار کے خلاف کام کرنا بھی عام بات ہے۔ باغی امیدواروں میں سے بعض کو حریف گروہ میدان میں اتارتے ہیں وہ نئے اور بڑھتے خطرات ہیں، بعض اوقات یہ دیکھا گیا کہ باغی امیدوار نے پارٹی امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اور اسے تیسری یا چوتھے مقام پر ڈھکیل دیا جس کے ذریعہ عام طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ باغی امیدوار پارٹی کارکنوں کا ترجیحی امیدوار تھا۔ ڈیٹا کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کو 17 حلقوں میں صرف اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان حلقوں میں باغی امیدوار مقابلہ میں اتر گئے تھے۔
بوتھ کمیٹیاں : چند ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی بوتھ کی سطح کی کمیٹیاں ہیں جو بہت سرگرم ہیں اس معاملہ میں ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے کی مثال پیش کی جاسکتی تھی بعد میں آر ایس ایس کی مدد سے بی جے پی نے تاملناڈو کی ان سیاسی جماعتوں کی تقلید کرنے کی کوشش کی اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ بوتھ کمیٹیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صرف یہ کمیٹیاں کسی بھی الیکشن کے آخری مرحلہ تک رائے دہندوں میں اپنی پارٹی امیدوار کی تائید و حمایت کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں اور رائے دہی کے دن بھی رائے دہندوں کو متحرک کرتی ہیں اس بارے میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جو سیاسی جماعت بوتھ کمیٹیوں کے قیام اور ان کی تعیناتی میں ناکام رہتی ہیں وہ تائید و حمایت کرنے والے امکانی رائے دہندوں سے محروم ہوگی۔
انتخابی نظم : ایک ایسا شخص جس نے کسی الیکشن میں مقابلہ نہیں کیا اور جس نے شاذ و نادر ہی انتخابی کامیابی حاصل کی وہ کسی بھی پارٹی کے لئے بدترین انتخابی نگران ثابت ہوگا جبکہ ایک الیکشن انچارج ایسا ہونا چاہئے جو رائے دہی کی تاریخ سے 6 ماہ پہلے ہی اس ریاست میں موجود ہو۔ ساتھ ہی اسے ٹکنالوجی سے بھی اچھی طرح واقف ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ اس کا کسی بھی ذات پات یا صنفی تعصب و جانبداری سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ اس میں باغی عناصر و باغی امیدواروں کو مقابلہ سے دستبردار ہونے کی کامیاب ترغیب دینے کی صلاحیتوں کا بھی حامل ہونا چاہئے۔
پیسہ : انتخابات میں پیسہ بہت اہم ہوتا ہے لیکن یہ ایک متعین پہلو یا عنصر نہیں ہے، پیسوں کی تقسیم پوری طرح ایک ضائع عمل ہے کیونکہ حریف امیدوار بھی پیسہ تقسیم کرے گا۔ پیسہ کا صحیح استعمال سوشل میڈیا مصارف پر ہوگا ساتھ ہی تھوڑی رقم آخری دن کے بوتھ نظم کی خاطر بوتھ کمیٹیوں کے لئے چھوڑ دینی چاہئے۔ اکثر امیدوار یہ دعوی کرتے ہیں کہ رائے دہی کے دن سے پہلے ہی ان کا بجٹ ختم ہوگیا۔