20 روپئے میں نشہ کی عادت، ہارٹ اٹیک ، کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کا خطرہ، والدین بچوں کی حفاظت کریں
مسلم علاقوں میں انرجی ڈرنک کے رجحان میں اضافہ ، اسکولی طلبہ سے لے کر نوجوانوں پر کڑی نگرانی کی ضرورت
حیدرآباد 13 ستمبر (سیاست نیوز) سماج میں منشیات کی بڑھتی لعنت کے درمیان انرجی ڈرنک کے ذریعہ نشہ کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ گریٹر حیدآباد اور ریاست کے مختلف اضلاع میں اسکولی طلبہ سے لے کر بڑی عمر کے افراد وقتی طور پر سکون حاصل کرنے انرجی ڈرنکس کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان دنوں ہندوستان میں سستا انرجی ڈرنک کافی مقبول ہوچکا ہے۔ اسٹنگ (STING) نامی انرجی ڈرنک کم عمر نوجوانوں کیلئے کسی زہر سے کم نہیں لیکن اسکولی طلبہ اور دوسرے نوجوان اسے نشہ آور ڈرنک کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ڈرنک دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دستیاب ہے لیکن ماہرین کے مطابق ہندوستان میں سربراہ کئے جانے والے ڈرنک میں مضرت رساں اشیاء کی مقدار زیادہ ہے۔ 2017 میں اسٹنگ متعارف کیا گیا اور انتہائی کم عرصہ میں وہ ایک سستے انرجی ڈرنک کی حیثیت سے شہرت حاصل کرچکا ہے۔ 250 ملی لیٹر کی بوتل محض 20 روپئے میں دی جاتی ہے اور یہ ملک کا پہلا سب سے سستا انرجی ڈرنک ہے۔ ماہرین نے اسٹنگ کے نقصانات پر تحقیق کے بعد عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نئی نسل کو اس ڈرنک سے دور رکھیں۔ شہری علاقوں میں گانجہ ، ڈرگس ، شراب جیسی نشہ آور چیزوں کی فہرست میں یہ انرجی ڈرنک شامل ہوچکا ہے۔ 15 سے 25 سال تک کے نوجوان اس ڈرنک کو صحت بخش اور توانائی دینے والا تصور کرکے استعمال کر رہے ہیں ۔ ڈرنک کی خاصیت یہ ہے کہ زیادہ استعمال پر وہ انسان کو استعمال کا عادی بنادیتا ہے اور جس طرح ڈرگس کا استعمال کرنے والے زیادہ دیر تک اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کچھ اسی طرح اسٹنگ انرجی ڈرنک کے بغیر نوجوانوں کا گزارا نہیں ہوتا۔ کئی نوجوان روزانہ 4 تا 5 بوتلوں کا استعمال کر رہے ہیں اور اس کے عادی بن چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈرنک ذہنی طورپر سکون فراہم کرتا ہے اور یہ کسی نشہ سے کم نہیں ہے ۔ محنت مزدوری کرنے والے نوجوانوں میں ڈرگس کی طرح اسٹنگ کا استعمال اس لئے بھی عام ہوچکا ہے کہ وہ سستا اور بآسانی دستیاب ہے۔ اب تو کرانہ شاپس پر بھی یہ زہریلا ڈرنک بچوں کو بآسانی دستیاب ہے۔ مارکٹ میں موجود دیگر انرجی ڈرنک کی قیمت تقریباً 200 روپئے سے زیادہ ہے۔ ایسے میں غریب اور متوسط طبقات کے نوجوان 20 روپئے خرچ کرکے نشہ حاصل کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انرجی ڈرنک کے نام پر کیفین ، شوگر ، وٹامنس ،ایمینو ایسڈس اور دیگر اجزاء کا استعمال کیا جارہا ہے جو عام حالات میں بھی ضرورت سے زیادہ خوراک ملنے پر صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ زیادہ استعمال کے نتیجہ میں نوجوان قلب کے امراض کا شکار ہورہے ہیں اور کم عمری میں ہارٹ اٹیک کا ہونا سستے اور غیر معیاری انرجی ڈرنک کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ کیفین کے استعمال سے اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسٹنگ کے استعمال سے جگر کی بیماریاں بھی وجود میں آرہی ہیں۔ اسٹنگ کے زیادہ استعمال سے گردوں کے ناکارہ ہونے اور بلڈ کینسر کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ میدے اور جگر کے کینسر کیلئے کیفین کا زیادہ استعمال اہم سبب بن سکتا ہے۔ سستے انرجی ڈرنک کے استعمال سے انسان کو نیند نہیں آتی اور وہ دیگر تک چاق و چوبند جاگ سکتا ہے۔ 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کے لئے اسٹنگ کسی زہر سے کم نہیں۔ ماہرین نے کہا کہ انرجی ڈرنک کے زیادہ استعمال سے مردانہ طاقت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدرآباد کے مسلم آبادی والے علاقوں میں اسٹنگ کا استعمال ہر عمر کے افراد میں عروج پر ہے۔ جگہ جگہ ریٹیل ڈسٹری بیوٹرس موجود ہیں اور زیادہ منافع کیلئے اسٹنگ کے کاروبار کو فروغ دیا جارہا ہے۔ بعض تاجروں نے بتایا کہ استعمال کرنے والے زیادہ تر نوجوان حالات نشہ میں دکھائی دیتے ہیں۔ گانجہ اور ڈرگس کے استعمال کے بعد اسٹنگ کا استعمال نشہ کو دوبالا کردیتا ہے۔ والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس زہریلی نشہ آور ڈرنک سے اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔ کئی تاجرین نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ بحالت مجبوری فروخت کر رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر نوجوان گاہک اسٹنگ کی خریدی کیلئے ان کی دکان پہنچتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منشیات کے علاوہ انرجی ڈرنکس کے نقصانات سے نوجوان نسل کو واقف کرانے کیلئے شعور بیداری مہم چلائی جائے۔ مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں نوجوانوں کو مہلک انرجی ڈرنک کے نقصانات سے واقف کرایا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مسلم تاجر خود اپنے طور پر ایسے مضرت رساں ڈرنکس کی فروخت کو بند کردیں تاکہ نوجوانوں نسل کی حفاظت کی جاسکے۔ حالیہ عرصہ میں کم عمر افراد اور نوجوانوں میں ہارٹ اٹیک سے اموات کے واقعات میں اضافہ کی ایک اہم وجہ انرجی ڈرنکس بتائی جاتی ہے۔ جم جانے والے نوجوان کم وقت میں بہتر جسامت حاصل کرنے کیلئے انرجی ڈرنکس کا استعمال کر رہے ہیں اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جم ٹرینرس اور جم کے مالکین خود نوجوانوں کو انرجی ڈرنکس کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں ، حالانکہ زیادہ استعمال سے کئی نوجوانوں کی جم میں موت واقع ہوئی ہے۔ 1