رام پنیانی
گجرات قتل عام (2002ء) ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑی مخالف اقلیت پرتشدد کارروائی تھی۔ وہ دراصل ایک ایسی تباہی و بربادی تھی جس میں مسلمانوں کے ساتھ نفرت و عداوت اور انہیں الگ تھلگ کرنے کی ایک بڑی سازش و ناپاک منصوبہ پر عمل کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ اس تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کی بستیوں کو تک الگ کردیا گیا۔ اُس تشدد سے قبل ہی ’’گجرات، ہندو راشٹرا کی لیباریٹری‘‘ جیسی اصطلاح کو مقبول عام بنایا گیا۔ آپ کو بتادیں کہ گجرات فسادات کیلئے گودھرا میں ایک ٹرین کی بوگیوں میں آتشزدگی کو بہانا بنایا گیا اور اس بہانہ کے تحت ریاست میں فسادات کی آگ بھڑکائی گئی جس میں کم از کم ایک ہزار سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں۔
تہلکہ کے اشیش کھیتان نے جو خفیہ آپریشن کیا، اس میں بابو بجرنگی جیسے لوگوں نے انکشاف کیا کہ انہیں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام، ان کی عورتوں کی عصمت ریزی اور مسلمانوں کی املاک کو تباہ و برباد کرنے اور انہیں لوٹنے کیلئے تین دن کا وقت دیا گیا تھا۔ بابو بجرنگی نے صرف اُسی انکشاف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے انتہائی فخریہ انداز میں یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے اس میں خود کے مہارانا پرتاپ ہونے کا احساس پیدا ہورہا تھا۔ دوسری طرف جنرل ضمیر الدین شاہ نے یہ کہہ کر اس وقت کی مودی حکومت کی پول کھول کر رکھ دی کہ فوج کو ایک طویل وقت تک انتظار کروایا گیا۔ اگر ریاستی حکومت فوج کو فوری کارروائی کی اجازت دیتی تو بے شمار انسانوں کی جانیں بچ جاتی اور تاریخ کی بدترین لوٹ مار نہیں ہوتی۔ عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ متاثر بھی نہ ہوتی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بابو بجرنگی جیسے مجرمین کو جنہوں نے باضابطہ بے قصور مسلمانوں کو قتل کرنے ان کی املاک لوٹنے کا اعتراف کیا۔ چند بنیادوں پر ضمانت دے دی گئی۔ انہیں ضمانت دیئے جانا نہ صرف ہمارے نظام انصاف رسانی میں پائی جانے والی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے بلکہ انصاف پسند عوام کو بھی حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ مایاکوڈنانی جنہوں نے تشدد پر اکسایا اور جنہیں سزائے عمر قید سنائی گئی، انہیں بھی ضمانت دے دی گئی لیکن تیستا سیتلواد جنہوں نے متاثرین فسادات کے حق کی لڑائی لڑی تھی، انہیں جیل میں بند کردیا گیا ، تباہی و بربادی کے اس کھیل کی ریاست نے بھرپور حمایت کی۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ جسٹس ساونت کی زیرقیادت سٹیزنس ٹریبیونل نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات کہی ہے۔ گجرات فسادات و قتل عام کے مقدمات میں جن مقدمات میں متاثرین کو کامیابی ملی، اس میں بلقیس بانو کا کیس بھی شامل ہے۔ وہ اور اس کے ارکان خاندان نے اپنی جانیں بچانے کیلئے کھیتوں میں فراری اختیار کی تھی لیکن بلوائیوں نے ان کا پتہ چلالیا۔ بلقیس، اس کی ماں اور بہن کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی، اس کے سات ارکان خاندان کو انتہائی ظالمانہ انداز میں قتل کردیا گیا۔ جن میں بلقیس کے دو چھوٹے بھائی جن کی عمریں 11 اور 13 سال تھیں، شامل تھے، بلقیس بانو کو جو اس وقت 5 ماں کی حاملہ تھی، مردہ سمجھ کر یا مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا لیکن خوش قسمتی سے وہ زندہ بچ گئی۔ جب فسادی اس کی عصمت ریزی کے بعد اسے چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے ، اس کے بدن پر کوئی لباس نہیں تھا، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح قریبی پولیس اسٹیشن پہنچی اور مقدمہ درج کروایا۔ بلقیس بانو نے مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے جس جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیا، وہ غیرمعمولی تھا۔ اس معاملے میں باحوصلہ جہدکاروں انسانیت نواز مرد و خواتین نے اس کی بھرپور مدد کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 11 ملزمین کو سزائے عمر قید سنائی گئی اور 2008ء میں انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلنے کا حکم صادر ہوا لیکن 11 مجرمین میں سے ایک سزائے عمر قید کی معافی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوا اور سپریم کورٹ نے اپنی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت گجرات کو ہدایت دی کہ وہ درخواست گذار کی درخواست پر غور کرے۔ شاید وہ یہ بھول گئی کہ یہ ایسا مقدمہ تھا جسے اس بات کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراشٹرا منتقل کیا گیا تھا کہ گجرات میں اگر مقدمہ کی سماعت ہوتی ہے توانصاف نہیں ملے گا۔ افسوس صد افسوس کہ 15 اگست 2022ء کو جبکہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی لال قلعہ کی فصیل سے خطاب میں ’’ناری شکتی‘‘ کی باتیں کررہے تھے، ان 11 مجرمین کی رہائی عمل لائی گئی، صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ جیل سے باہر آنے پر ان مجرمین کی گلپوشی کرتے ہوئے اور مٹھائی کھلاتے ہوئے خیرمقدم کیا گیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عدالت نے ان 11 مجرمین کو قتل اور اجتماعی عصمت ریزی کی پاداش میں سزائے عمر قید سنائی تھی لیکن ان کی سزا کے دوران انہیں بار بار پیرول پر رہا کیا گیا۔ عینی شاہدین اور گواہوں کو ڈرایا دھمکایا گیا اب جبکہ تمام قاتل اور زانی آزاد ہوچکے ہیں، انہیں معافی دے دی گئی ہے، بلقیس بانو مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ اس علاقہ کے کئی مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسرے محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے لگے ہیں، اسی طرح ان مسلمانوں کی ایک نئی اور الگ تھلگ بستیاں وجود میں آئیں گی۔ سپریم کورٹ اور ریاست گجرات کی حکومت کے اس فیصلے کو خاتون اور اخلاقی طور پر انسانیت کے منافی فیصلہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
بی جے پی نے قانون کے نام پر بے شمار لوگوں کے قاتلوں اور کئی ایک خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کا ارتکاب کرنے والوں کو معافی دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا ہے۔ خاص کر مہذب سماج نے اس فیصلہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ساری دنیا میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن گودی میڈیا اور بی جے پی کا میڈیا سیل اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ لفاظی کیلئے شہرت رکھنے والے ہمارے وزیراعظم خاموش ہیں۔ شاید انہوں نے انتخابی فوائد کی خاطر خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ یہ بھی سچ ہے کہ بی جے پی کے صرف دو لیڈروں خوشبو سندر اور شانتا کمار نے اس سارے واقعہ کی مذمت کی۔ اگرچہ مجرمین کی رہائی ایک قومی شرم ہے لیکن بی جے پی قائدین کو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔ خواتین کے کئی گروپس اور حقوق انسانی کے دوسرے گروپوں نے شدید احتجاج کیا اور اب بھی کررہے ہیں، لیکن اس کا تاحال کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہاں ریٹائرڈ سیول سرونٹس نے سخت الفاظ پر مشتمل نے اس سارے قضیہ کیلئے شدید تنقید کرتے ہوئے حکومت گجرات پر زور دیا کہ وہ مجرمین کو معافی دینے سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے۔ ہزاروں لوگوں نے ایک پٹیشن پر بھی دستخطیں کیں اور ان لوگوں نے نہ صرف سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ حکومت گجرات کی جانب سے کئے گئے اقدام پر شدید برہمی ظاہر کی۔ ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا ، سبھاش علی، ریوتی لال اور روپ ریکھا ورما کے بشمول کئی اہم شخصیتوں نے ناری شکتی کا نعرہ لگاتے ہوئے خواتین کے حقوق کی ہتک آمیز انداز میں پامالی پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست داخل کی۔ اس تمام قصہ کا بدترین حصہ خاطیوں کی گلپوشی اور انہیں مٹھائی کھلاکر خیرمقدم کرنا ہے جو پدرانہ اقدار کی مناسبت سے کیا گیا اقدام ہے اور جو فرقہ وارانہ نظریات کا موروثی حصہ ہے جس میں ہندوتوا بشمول تمام بنیاد پرست شامل ہیں جو خواتین کو مردوں کی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو فرقہ وارانہ تشدد کو دو برادریوں کے مابین لڑائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور یہاں خواتین کو مردوں کی ملکیت سمجھا گیا چنانچہ دوسری برادری کے مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بے عزتی کو ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف برقرار رکھا گیا بلکہ اس کی تعریف و ستائش بھی کی گئی۔