انسانیت سوز درندگی کے واقعات اور ان کاتدارک

   

Ferty9 Clinic

مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ
خواتین کی عصمت ریزی و قتل کے گھناؤنے واقعات نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ‘ملک کی آبادی کا نصف حصہ ( خواتین کا طبقہ) عدم تحفظ کا شکار ہے‘ انسان نما بھیڑیوںکو پھول جیسی معصوم کلیوں کو مسلتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی بیٹیاں یاد نہیںآتیں‘ نوجوان لڑکیوں کا ریپ کرکے نذرآتش کرتے ہوئے کیوں ان کو اپنی بہنوں کی یاد تازہ نہیں ہوتی؟ معمر خواتین بھی ان جنسی ہوس کے درندوںکی زد سے محفوظ نہیں ہیں جو ان کیلئے ماں کا درجہ رکھتی ہیں‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان نما درندوں کی بہتات ہے جن کی فطرت سلیمہ مسخ ہوچکی ہے ‘کھٹوعہ کا دلخراش واقعہ ابھی تک بھلایا نہیں جاسکا تھا‘ جس میں ایک ننھی سی معصوم آٹھ سالہ آصفہ بی بی کا اغواء کرکے چھ درندے مسلسل چھ دن تک وہ بھی مندر کے جوار میں شیطانیت کا ننگا ناچ ناچتے رہے ‘ درندگی کی انتہاء یہ کہ ان شیطانوں کے چنگل میںوہ ایسی پھنسی رہی کہ یہ معصوم جان موت کے بعد بھی ان درندوں کی درندگی سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ ان شیطان نما انسانوں نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ شناخت مٹانے کی غرض سے اس پر پتھروں کی بارش کردی تاکہ وہ پہچانی نہ جاسکے‘ افسوس اس بات کا ہے کہ اس جرم کی پردہ پوشی اور مجرموں کو بے داغ ثابت کرنے کیلئے کئی ایک سیاسی لیڈر میدان میںآگئے تھے‘ اور مجرموں کی تائید میں جلوس نکالے تھے‘ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ملک کی معصوم ننھی منی بیٹی آصفہ کی تائید میں جلوس نکلتا اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی مانگ کی جاتی ‘ کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں معصوم بچیوں کی عصمت ریزی کی خبریں اخبارات میں شائع نہ ہوتی ہوں ‘ تازہ واقعات میں ریاست تلنگانہ کی خاتون ویٹرنری ڈاکٹر کی عصمت ریزی‘ بیدردی سے اس کا قتل اور اس کی نعش کو ٹھکانے لگانے کیلئے نذر آتش کرنے کا واقعہ ملک کے سارے شہریوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ‘اس غمناک حادثہ سے ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ اترپردیش کے ’’اُناو‘‘ میں ایک اور دلخراش واقعہ نے انسانیت کو دہلا دیا ہے‘ ایک لڑکی جو اپنی عصمت دری کے ظلم کے خلاف عدالت میں چلنے والے مقدمہ کے سلسلہ میں ایڈوکیٹ سے ملاقات کیلئے جارہی تھی‘کہ اثناء راہ انسانیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے پانچ درندوں نے اس کو اپنی گرفت میں لے کر پٹرول چھڑکا اورآگ لگادی‘ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تقریباً ایک کیلو میٹر تک اپنی مدد کیلئے دوڑتی رہی لیکن کوئی اس کی مدد کیلئے نہیں پہنچ سکا ‘جو ۹۰ فیصد سے زائد جھلس چکی تھی‘موت و زیست کی کشمکش رہ کر میں ۷ ڈسمبر ۲۰۱۹ء کو اس نے دم توڑ دیا ہے ‘ افسوسناک بات یہ ہے کہ اسی ’’اُناو ‘‘کے رکن اسمبلی پر جن کی حکمراں پارٹی بی جے پی سے نسبت ہے ایک لڑکی کو ملازمت دینے کا لالچ دے کر عصمت ریزی کرنے کا الزام عائد ہے ‘ آثار و شواہد کی روشنی میں یہ یقین ظاہر کیا جارہا ہے کہ عدالت میں یہ جرم ثابت ہوجائے ‘ شائد اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی غرض سے اس لڑکی پر جان لیوا حملہ کیاگیا ہے‘ یہ دوہرہ جرم ہے یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب متاثرہ لڑکی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کار میں عدالت جارہی تھی ‘ ایک ٹرک نے اسے ٹکر دے دی ‘اس حادثہ میں متاثرہ لڑکی کی دو خاتون رشتہ داروںکی جان چلی گئی‘ مذکورہ لڑکی اور اس کے مقدمہ کی پیروی کرنے والے ایڈوکیٹ دونوں شدید زخمی ہوگئے ‘ ملک کے بعض سوامیوں (مذہبی رہنماؤں) کے بارے میں ایسے واقعات اکثر اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں‘ کچھ سوامی وہ ہیں جو جیل کی سلاخوں میں بندہیں ‘حالیہ عرصہ میں ایک سوامی جو بی جے پی کے ہی لیڈر ہیں ‘ ایک طالبہ نے ان پرزیادتی کا الزام عائد کیا تو خود اس لڑکی کو الزامات کے جال میں پھنسا کر اس پر مقدمہ دائر کردیا ہے ۔ایک اور سوامی نتیانند جو عصمت ریزی اور اغواء کے کیس میں ہندوستان کو مطلوب ہے ‘جرائم کا مرتکب ہے کچھ عرصہ قبل دعویٰ کیاکہ اس نے ایکویڈارسے ایک جزیرہ خرید کر ’’ہندوملک‘‘ کیلاش بنالیا ہے۔

گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کئی ایک ریپ کے واقعات منظر عام پرآئے ہیں ‘جن میں اترپردیش کی ۷۰ / سالہ خاتون ‘ آندھراپردیش کی ۵۵ / سالہ خاتون ‘راجستھان کے ایک علاقہ میں انٹرمیڈیٹ کی طالبہ کے نام آئے ہیںجو جنسی تشدد کا دکھ جھیل رہی ہیں‘ بہار کے ایک علاقہ میں ایک ۲۰ /سالہ لڑکی جنسی درندگی کے بعد نذرآتش کردی گئی ہے جو نصف سے زائد جل چکی تھی‘ مدھیہ پردیش میں ۱۷ /سالہ لڑکی ‘گلبرگہ میں ۹ /سالہ لڑکی  درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں‘ ۲۰۱۲ ء میں ایک لڑکی لوکل بس میں سفر کے دوران جنسی درندگی کا نشانہ بنائی گئی تھی جس کو چلتی بس سے نیچے ڈھکیل دیا گیا تھا‘  اس حادثہ کے بعد نربھیا ایکٹ بنایا گیا تھا‘ ۸ /سال کا عرصہ بیت چکا ہے ‘نربھیا کے خاطیوں پرسزا کی تعمیل نہیں کی گئی باوجود یہ کہ عدالت عالیہ (سپریم کورٹ ) میں ان کے جرم کے ثبوت پر سزائے موت کا فیصلہ صادر ہوچکاہے‘ الغرض اس کے بعد سے جنسی جرائم کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہ واقعات وہ ہیں جو منظر عام پر آجاتے ہیں ورنہ ایسے کتنے جنسی جرائم ہونگے جو شخصی و خاندانی بے عزتی کے خوف سے پولیس تھانوں میں درج نہیں کیئے جاتے‘ الغرض اس وقت مسلمانوں کے بعد خواتین اس ملک میں بہت زیادہ ظلم و زیادتی کا شکار ہیں ‘ اپنے آپ کو بے بس اور غیر محفوظ تصور کررہی ہیں‘حکومت اور قانون کے اداروں تک رسائی ہر ایک کیلئے آسان نہیں ‘ اور رسائی ہوبھی جائے تو انصاف ملنے اور مظلوموں کو راحت پہنچنے تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے ‘اس ملک میں رشوت اور کرپشن کا چلن عام ہے ‘ کہیں سیاسی اثر و رسوخ کہیںرشوت ‘کہیں خطرناک اور وحشیانہ جرائم کے مرتکب قانونی پیچیدگیوں اور لچک سے فائدہ اٹھاکر اور کہیں طاقت کا استعمال کرکے مجرمین اپنی حفاظت کا بندوبست کرلیتے ہیں‘ گنگا جمنی تہذیب کے اس عظیم جمہوری ملک میں اُلٹی گنگابہہ رہی ہے‘ عجیب بات ہے کہ مجرموں کیلئے پناہ کا راستہ آسان ہے ‘ بے بس مجبور مظلوموں کیلئے کوئی پناہ گاہ نہیں ‘ تلنگانہ میں ویٹرنری ڈاکٹر کی عصمت ریزی ‘قتل اور نذرآتش کئے جانے کے سانحہ سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا تھا ‘۲۰۱۲ء کے نربھیا واقعہ پر بھی ملک گیر سطح پر احتجاج ہوا تھا جس سے اس کی یاد تازہ ہوگئی ہے‘ مختلف شہروں میں مختلف انداز سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھا ‘ دریں اثناء اس کیس کے چاروں ملزمین کو بتاریخ ۸/ڈسمبر انکاونٹر میں ہلاک کردیا گیا ہے ‘جس پر ملک کے باشندوں کا ملاجلا ردعمل سامنے آرہا ہے ‘

کچھ وہ ہیں جو اس کی ستائش کررہے ہیں یہ طبقہ آئندہ کے احوال سے بے خبر جذباتی فکر رکھنے والے عامۃ الناس کا ہے چونکہ ہندوستان میں اس طرح کے مجرمانہ واقعات پر درج بالا وجوہات کی بناء مظلوموں کی فوری دادرسی ممکن نہیں ہورہی ہے ‘اس لئے اس طریقہ کار کو منصفانہ قرار دیا جارہا ہے بادی النظرمیں اس کو بھی غلط نہیں کہا جاسکتا قانون کی مشہور اصطلاح ہے ’’انصاف میں تاخیر ‘انصاف سے محرومی کے مترادف ہے‘‘ جبکہ کئی ایک سنجیدہ انجام پر گہری نظر رکھنے والے ملک میں دستور و قانون کی بالادستی کیلئے فکر مند شہریوں نے اس پر کئی سوالات اُٹھائے ہیں ‘گہرائی سے غور کیا جائے تو ان کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیںہوسکتا‘ آیا یہ انکاونٹر حقیقی تھا یا فرضی چونکہ اکثر انکاونٹر فرضی مانے گئے ہیں‘ جن کی ایک طویل فہرست ہے‘ ویسے ہمارا ملک فرضی انکاونٹرس کے معاملہ میں خاصا بدنام ہے ‘جہاں قانون کا راج ہو وہاں ماوراء قانون ہلاکتوں سے غلط نظیر قائم ہوسکتی ہے جو ملک میں قانون کی بالادستی کیلئے تشویشناک چیلنج ہے ان کا یہ بھی احساس ہے کہ اس قسم کے جرائم میں ملوث یہ درندہ صفت مرتکبین کسی بھی طرح رحم کے مستحق نہیں ہیں‘ لیکن قانون کے اداروں کا جو فرض ہے اس کو محکمہ پولیس غیر قانونی طور پر انجام دینے لگے‘ تو عدالتوں کا وجود بے معنی ہوکررہ جائے گا‘ یہ انکاونٹر ایک طرح سے عدلیہ کے انکاونٹر کے مترادف ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی جنسی ہراسانی اور عصمت ریزی کے بکثرت واقعات جو ڈسمبر۲۰۱۲ ء میں وقوع پذیر ہوئے تھے‘ اس تناظر میں سخت قانون بنائے جانے کے باوجودیہ سلسلہ تھمنے کے بجائے روز افزوں ہے‘ الغرض خواتین کے احترام اور ان کوسماج میں ان کا جائز مقام دلانے کے عنوان سے عالمی سطح پر تنظیمیں قائم ہیں‘ جو خواتین کے استحصا ل سے پاک سماج کی تعمیر کیلئے کوشا ں ہیں‘ سیاسی ‘سماجی ‘ اقتصادی ہر جہت سے ان کو اونچا اٹھانے کا آوازہ بلند کیا گیا ہے‘ہر قسم کے ذہنی ‘جسمانی تشدداور جنسی استحصال سے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے شعور بیداری مہم کے طور پر عالمی سطح پر ریالیاں ‘ جلوس‘ جلسوںکے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے خاص طور پر ہر سال ’’یوم خواتین‘‘ منائے جانے کا اہتمام چل پڑا ہے ‘ اس کے باوجود ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق پہلے سے کہیں زیادہ خواتین ظلم و بربریت کا شکار ہورہی ہیں‘چونکہ ان کی جدوجہد کا رخ مادی طرزفکر پر مبنی ہے ‘گویا ان کی یہ کوششیں درخت کی جڑوں میں پانی دینے کے بجائے پانی سے اس کی شاخوں کی دھول وگرد صاف کرنے کے مترادف ہے‘بالکل یہ ایک غیر فطری عمل ہے اس لئے کوئی مثبت نتیجہ ہاتھ نہیںآسکا ہے ‘وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی تنظیموں نے اسلام مخالفت کے جذبہ سے خواتین کی آزادی کا نعرہ دیا‘ یہ نعرہ درحقیقت زہر ہلاہل ہے ‘مغرب زدگی کے مرض کی وجہ جس کو قند(شکر) سمجھنے کا دھوکہ ہوا ہے ‘ سنکھیا ایک زہر ہے جس کی رنگت سفید ہوتی ہے فقط رنگت کی وجہ اس کو ’’شکر ‘‘مان لینے کی غلطی ہوئی ہے ‘ انسانی سماج کا چہرہ بے دینی‘ بداخلاقی ‘ بے حیائی و بے غیرتی کی دھول وگرد سے ہوا ہے سماج کے چہرے کو اسلام کے آبِ حیات سے دھونے کے بجائے ان غیر انسانی و غیر اخلاقی قدروں سے بنے پارہ چڑھے آئینوں کی گرد و غبار صاف کرنے کی مہم چل رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان کو جنسی تشد د و دیگر جرائم سے کیسے پاک کیا جائے‘ وہ کونسا لائحہ عمل ہوسکتا ہے جس پر عمل کرکے اس مسئلہ کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے‘ ظاہر ہے اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ’’اسلام‘اسلام‘اسلام ‘‘ اسلام سے قبل بھی خواتین کی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں تھی‘ لیکن جب اسلام آیا‘ تو خواتین کو ان کا جائز مقام حاصل ہوا‘ ناانصافی ‘ ظلم و جور‘جبر وزیادتی‘جنسی انارکی کے غیر انسانی ماحول میں اسلام نے ان کے سروں پر عزت و توقیرکا تاج رکھا۔ ’’ولقد کرمنابنی آدم ‘‘ بنوآدم میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں‘ خواتین کی عظمت و احترام ان کی عزت و توقیر ‘ناموس کی حفاظت دل و جان سے اسلام کو تسلیم کرنے اور اسلامی احکام پر عمل ہی سے ممکن ہے ‘اس سے کنارہ کشی کرکے کہیں اور اس کو تلاش کرنا ’’سراب ‘‘کے مانند ہے۔