انضمام یا اتحاد ،بی آر ایس قائدین کے بی جے پی سے مذاکرات

,

   

ارکان اسمبلی کے انحراف سے پارٹی کمزور، چندرا بابونائیڈو فارمولہ اختیار کرنے کے سی آر کا فیصلہ، پارٹی قائدین میں اختلاف رائے
حیدرآباد ۔ 19۔ جولائی (سیاست نیوز) اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں بی آر ایس کی شکست کے بعد پارٹی سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کے لئے ریاست میں بی آر ایس کا احیاء ایک چیلنج بن چکا ہے ۔ لوک سبھا نتائج کے بعد بی آر ایس ارکان اسمبلی یکے بعد دیگرے کانگریس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ تاحال 10 بی آر ایس ارکان اسمبلی نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی اور گریٹر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے مزید ارکان اسمبلی کے کانگریس سے ربط میں ہونے کی اطلاعات ہیں۔ قائدین کے انحراف کو روکنے کیلئے کے سی آر نے آندھراپردیش میں چندرا بابو نائیڈو کی جانب سے اختیار کردہ فارمولہ کو تلنگانہ میں اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بی جے پی کے اعلیٰ قائدین سے بی آر ایس کی مشاورت جاری ہے جس میں پارٹی کے بی جے پی میں انضمام یا اتحاد کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ 2019 اسمبلی انتخابات میں آندھراپردیش میں چندرا بابو نائیڈو کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے وائی ایس جگن موہن ریڈی سے مقابلہ کیلئے بی جے پی اور جنا سینا سے اتحاد کرلیا اور وہ این ڈی اے میں شامل ہوگئے۔ تینوں پارٹیوں کے ووٹ بینک کے نتیجہ میں چندرا بابو نائیڈو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ بی آر ایس کے ذرائع کے مطابق کے سی آر نائیڈو کے فارمولہ کو اختیار کرنے کا من بناچکے ہیں اور اس سلسلہ میں پارٹی کے سرکردہ قائدین سے مشاورت جاری ہے۔ کے سی آر کا ماننا ہے کہ بی جے پی سے اتحاد اور این ڈی اے میں شمولیت کے نتیجہ میں ارکان اسمبلی کے انحراف کو روکا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے ایک قائد کو مذاکرات کی ذمہ داری دی ہے جو پارٹی میں اہم عہدہ پر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انضمام یا اتحاد کے مسئلہ پر بی جے پی اور بی آر ایس دونوں پارٹیوں کے قائدین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔ تلنگانہ کے بی جے پی قائدین انضمام کے مخالف ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ بی آر ایس سے مفاہمت کی صورت میں پارٹی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تین ارکان پارلیمنٹ نے انضمام کی پیشکش کی مخالفت کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کے ٹی آر اور ہریش راؤ کے حالیہ دورہ دہلی کے دوران بی جے پی قیادت سے انضمام یا اتحاد کے مسئلہ پر بات چیت ہوئی ہے۔ بی آر ایس کے بیشتر قائدین نے انضمام کی مخالفت کی اور آندھراپردیش کی طرز پر این ڈی اے میں شمولیت کی تائید کی ہے۔ ذرائع کے مطابق انضمام کی صورت میں تلنگانہ جدوجہد کے نام پر قائم کی گئی پارٹی ختم ہوجائے گی اور اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا جبکہ این ڈی اے میں شمولیت کی صورت میں دونوں پارٹیوں کے ووٹ بینک سے آئندہ اسمبلی چناؤ میں پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آسکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی نے کے سی آر کو راجیہ سبھا کی نشست کی پیشکش کی ہے کیونکہ وہ کم تعداد کے ساتھ اسمبلی میں ریونت ریڈی کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسمبلی میں قائد اپوزیشن کی ذمہ داری کے ٹی راما راؤ یا ہریش راؤ کو دی جاسکتی ہے۔ کانگریس حکومت کے خوف کے نتیجہ میں کے سی آر کے پاس بی جے پی سے قربت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ پارٹی نے انضمام یا اتحاد کے مسئلہ پر سرکاری طور پر اپنا موقف واضح نہیں کیا لیکن سینئر قائدین انفرادی ملاقات میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ 2001 میں علحدہ ریاست تلنگانہ کی جدوجہد کے لئے ٹی آر ایس قائم کی گئی تھی اور کے سی آر نے 2014 تک مسلسل جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں مرکز کی یو پی اے حکومت نے علحدہ تلنگانہ کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ کے سی آر 10 سال تک چیف منسٹر کی حیثیت سے تلنگانہ میں ناقابل تسخیر قائدبن چکے تھے لیکن اسمبلی انتخابات میں شکست اور پھر لوک سبھا چناؤ میں صفر نتیجہ نے کے سی آر کی قیادت کے لئے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ ارکان اسمبلی کے انحراف سے کے سی آر دلبرداشتہ ہیں کیونکہ انحراف کے نتیجہ میں دیہی سطح پر پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہورہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی سے مفاہمت یا انضمام کے سلسلہ میں اندرون ایک ہفتہ صورتحال واضح ہوجائے گی۔ 1