انفرادی آزادی اور عدالتیں

   

پی چدمبرم

ایک ایسے وقت جبکہ ہم امید کا دامن چھوڑ رہے تھے کچھ ایسی علامتیں ظاہر ہوئیں جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اب بھی ہمارے ملک میں انفرادی آزادی کے تحفظ کا رجحان ختم نہیں ہوا ہے بلکہ انفرادی آزادی کے تحفظ کو اہمیت حاصل ہے۔ جہاں تک ہندوستان میں بیرونی باشندوں اور ان کی حکمرانی کو لے کر خدشات کا اظہار کرنے کا سوال ہے ان کے بارے میں یہی نظریہ سامنے آیا ہے کہ ہندوستان بیرونی طاقتوں کی زیر حکمرانی رہنا نہیں چاہتا اور ان بیرونی طاقتوں کو ہندوستان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں یا ہندوستانیوں کو ان کی انفرادی آزادی سے محروم کرنے کا کسی کو کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ ایسا نظریہ تھا جو ہندوستان میں بڑی تاخیر سے آیا۔ اگر آپ اس پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں قرار داد آزادی یا اس کے اعلان پر 4 جولائی 1776 میں دستخط ہوئی۔
تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ بعد ایک آزاد و اقتدار اعلیٰ ہندوستان کی آزادی کا آئیڈیا ہندوستانیوں کے ذہنوں میں پیدا ہوا۔ کولکتہ میں کانگریس کا 1906 کے دوران اجلاس منعقد ہوا جس کے موقع پر دادا بائی نوروجی نے سوراج یا آزادی کا مطالبہ کیا لیکن وہ مطالبہ محدود خود حکمرانی کے لئے تھا۔ 1916 میں بال گنگا دھر تلک اور اینی بیسنٹ نے ’’ہوم رول‘‘ تحریک شروع کی اور برطانوی سلطنت کے تحت حکومت ’’یا اقتدار‘‘ کا موقف عطا کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن لاہور میں 1929 کو کانگریس کا سیشن منعقد ہوا جس میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے انگریزوں کے تسلط سے مکمل آزادی کا مطالبہ کرنے والی ایک قرار داد پیش کی اور اس قرار داد کو منظور کیا گیا۔ حصول آزادی کے لئے ہندوستان نے فرانس اور امریکہ میں فروغ پائے کئی نظریات کو اپنایا یا ان نظریات پر تکیہ کیا۔ خاص طور پر انقلاب فرانس کے دوران آزادی کے متوالوں نے ’’آزادی مساوات اور اخوت‘‘ کا جو نعرہ لگایا تھا اسے اور امریکی اعلان آزادی سے متعلق بیان یا قرار داد کو بھی اپنایا۔ امریکی آزادی کی قرارداد میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ تمام انسانوں کو مساویانہ طور پر پیدا کیا گیا اور مخلوق کو ان کے خالق نے مخصوص حقوق سے نوازا اور ان حقوق میں زندگی، آزادی اور حصول مسرت شامل ہیں اور جو کلیدی لفظ ہے وہ آزادی ہے۔

آزادی پر حملہ
اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ آزاد ہندکی تاریخ میں اس سے قبل اس طرح بڑی بے دردی سے ناراض آوازوں کو نہیں دبایا گیا یا احتجاجی مظاہروں اور انحراف کو کچلا نہیں گیا جس طرح موجودہ حالات میں دیکھا جارہا ہے۔ ایمرجنسی (1975-77) کے دوران سیاسی مخالفین حکومت کے عتاب کا نشانہ تھے۔ اب جو کوئی آواز حکومت کے خلاف اٹھتی ہے وہی حکومت کے نشانہ پر ہے چاہے وہ سیاسی، سماجی، تہذیبی، فنون لطیفہ پر یا تعلیمی سطح پر کیوں نہ ہو۔ اگر دیکھا جائے تو سنگھو اور تکری سرحدوں پر کسان زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں بی جے پی کے خلاف نہیں۔ اس کے باوجود ان کسانوں کو تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔ دلتوں، ذات پات کے امتیاز، قیمتوں میں اضافے، حق معلومات کے تحت معلومات کی فراہمی سے انکار، ماحول کو آلودہ کرنے والوں، بدعنوان عناصر، پولیس کی زیادتیوں، زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی خواہاں طاقتوں، محنت کشوں کو حقوق کی فراہمی سے انکار، تباہ کن معاشی پالیسیوں وغیرہ جیسے جرائم پر تڑپ اٹھ کر آواز بلند کرنے والے موجود ہیں۔ ان تمام ناراض عناصر کو مختلف بہانوں سے تحقیقاتی ایجنسیاں نشانہ بنا رہی ہیں۔ اگر موجودہ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی ناراض آواز یا احتجاج کو بی جے پی حکومت کی مخالفت تصور کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔ اسی لئے ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں ہم نوجوان ماحولیاتی جہدکار دیشاروی کی تازہ مثال پیش کرسکتے ہیں۔ دشا روی کا قصور یہ ہے کہ وہ کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کی تائید و حمایت کرتی ہیں۔ اس لڑکی کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ کوئی سیاسی عزم نہیں رکھتیں اور نہ ہی سیاسی سطح پر جانبداری کا جذبہ رکھتی ہیں اس کے باوجود دشا روی کو ریاست کی ایک دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ دشا سے پہلے کیرالا سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن کے بارے میں بھی اسی انداز کو اپنایا گیا۔ دراصل کپن اترپردیش کے ہاتھرس مقام پر ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل کے بارے میں ایک رپورٹ کی تیاری کے لئے اترپردیش جارہے تھے۔ انہیں گرفتار کرتے ہوئے حکومت کو زوال سے دوچار کرنے کے لئے ایک سازشی کے طور پر پیش کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کررہے طلبہ اور خواتین کو ایسی تکڑے تکڑے گینگ یا ٹولی قرار دیا گیا جو ملک کے اقتدار اعلیٰ اور سالمیت کو توڑنے کی کوشش کررہی تھی۔ جب نودیپ کور نے اپنے حقوق کے لئے لڑرہے کسانوں کی تائید و حمایت میں آواز اٹھائی تو انہیں فسادات برپا کرنے اور اقدام قتل کے الزامات میں جیل بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف ایک مذاق یا ایک لطیفہ جس پر کسی بھی طرح کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا تھا اسی لطیفہ کے نتیجہ میں ممتاز اسٹانڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا گیا۔ اس طرح آزادی کے ہر پہلو پر حملہ کیا گیا اور اس حملہ کو پائے تکمیل تک پہنچایا گیا۔
تماشہ بین
عدلیہ خاص طور پر تحت کی عدلیہ نے ایک تماشہ بین کا رول ادا کیا اور حسب معمول گرفتاریوں کو برقرار رکھا اور بنا کسی منطق کے لوگوں کو پولیس تحویل یا عدالتی تحویل میں بھیجا جانے لگا۔ ملک کا جو قانون ہے اسے نہیں اپنایا گیا۔ لیکن اب کچھ مقدمات منظر عام پر آئے ہیں جس میں عدالتوں نے انفرادی آزادی کی بات کہی ہے جس میں ارنب گوسوامی، انقلابی جہدکار 82 سالہ وراورا راؤ ماحولیاتی جہدکار دیشاروی کے مقدمات شامل ہیں، لیکن اب بھی عدالتوں کو اس معاملہ میں بہت کچھ کرنا ہے۔ خاص طور پر پولیس، سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ قومی تحقیقاتی ایجنسی کے رول پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عدالتیں ان ایجنسیوں کی شدید مخالفت کے نتیجہ میں ہی سماجی و انسانی جہدکاروں و حکومت کے مخالفین کو ضمانت دینے سے گریز کرتی ہیں۔ اب عدالتیں آزادی کے تقدس کو پامال ہونے سے بچارہی ہیں تو میرا احساس ہیکہ یہ آزادی کی دوسری جدوجہد کا آغاز ہے۔