رام پنیانی
نوام چومسکی امن کے عالمی شہرت یافتہ جہدکاروں میں سے ہیں۔ ویتنام پر امریکا کے حملے کے تناظر میں انھوں نے اپنا عمدہ نظریہ ’’رضامندی کیلئے تیار کرنا‘‘ پیش کیا تھا۔ یہ فقرہ وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح مملکت عوامی رائے کو توڑ مروڑ کر پیش کررہی ہے کہ عوام اس کی پالیسیوں کو قبول کرلیں… اس معاملے میں امریکی مملکت کا ویتنام پر حملہ رہا، جو تب فرانسیسی سامراج سے خود کو آزاد کرنے کی جدوجہد کررہا تھا۔
ہندوستان میں ہم مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پیدا کئے جانے کے شاہد ہیں۔ یہ نفرت سماج میں انتشار کو بڑھانے کا کام کرتی ہے، جس سے ہندوستان کی جمہوریت اور اس کا دستور ماند پڑتے ہیں اور ہندو راشٹر کی تائید کو بڑھاوا ملتا ہے۔ نفرت کو مختلف نوعیت کے میکانزم کے ذریعے تیار کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر یہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس طرح کی پیدا کردہ نفرت کے بعض حالیہ گھناؤنے واقعات ممبئی میں (1992-93ء) زبردست فرقہ وارانہ تشدد، گجرات (2002ء)، کندھامل (2008ء) اور مظفرنگر (2013ء) ہیں۔ اس کی دیگر شکل اُن لوگوں کی لنچنگ ہے جن پر گائے یا بیف کھانے کا الزام عائد کیا گیا۔ ایک اور متوازی طریقہ دلتوں کو ظالمانہ انداز میں کوڑے مارنا ، جو اکثر موت کا سبب بنتے ہیں۔ انھیں جانوروں کے ڈھانچوں یا چمڑے کا کاروبار کرنے پر یہ سزا دی گئی۔ نفرت کی ایک اور شکل بھی دیکھنے میں آئی جب ہندو قوم پرستوں کے پروپگنڈے سے جنون میں مبتلا شمبھو لال ریگر نے افرازل خان کو زندہ جلا دیا اور اس بربریت کا ویڈیو بنایا۔ اس وحشی حرکت کیلئے کئی لوگوں نے اس کی ستائش کی۔ ریگر کو لوو جہاد کے پروپگنڈے نے ایسی سفاکانہ حرکت پر اُکسایا۔ حالیہ دنوں میں ہم کو ایسی ہی نفرت کا عمل مزید بھیانک شکل میں دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ ہندو قوم پرست تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوان پستول استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے جبکہ پولیس حکام خاموش تماشائی رہے۔
مرکزی حکومت میں بی جے پی کے منسٹر انوراگ ٹھاکر نے حالیہ دہلی الیکشن کی انتخابی مہم میں ہجوم کو بھڑکایا کہ اُن کے نعرے کو مکمل کریں کہ ’’ملک کے غداروں کو…‘‘ کے ساتھ کیا ہونا چاہئے۔ اس پر حامیوں نے ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ کے ساتھ نعرہ مکمل کیا۔ بس دو روز بعد ایک نوجوان پستول کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں احتجاج کے مقام پر پہنچا اور چلایا ’’یہ لو آزادی‘‘ اور فائر کردیا۔ ایک گولی جامعہ کے طالب علم کو زخمی کرگئی۔ ایسا ہی کچھ 1948ء میں ہوا تھا جب 30 جنوری کو نتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی مار دی تھی۔
چند روز بعد ایک اور نوجوان نے شاہین باغ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے مقام کے قریب فائر کیا۔ اس کے فوری بعد وہ کہنے لگا، ’’صرف ہندو ہی حکمرانی کریں گے‘‘۔ صاف طور پر ظاہر ہے کہ ہندو قوم پرست تنظیموں سے وابستہ افراد ہندوستان میں بالعموم اور مذہبی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی طویل مہم کا نتیجہ ہیں۔ موجودہ مرحلہ نفرت کی طویل اور پُراستقلال مہم کا نتیجہ ہے، جس کی شروعات مذہب کے نام پر قوم پرستی میں مضمر ہے؛ مسلم قوم پرستی اور ہندو قوم پرستی۔ اس فرقہ وارانہ قوم پرستی نے تاریخ کے فرقہ پرستانہ نقطہ نظر کا اثر قبول کیا اور فرقہ پرستانہ تاریخی پس منظر کا انگریزوں نے خوب استعمال کیا تاکہ ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی اپنی پالیسی کو آگے بڑھاتے رہیں۔ ہندوستان میں ’’سماجی عمومی فہم‘‘ کا یہ حصہ بن چکا ہے کہ مسلم بادشاہوں نے ہندو مندروں کو مسمار کیا اور اسلام طاقت کے زور پر پھیلایا گیا، نیز یہ بیرونی مذہب ہے، وغیرہ۔
ہندو دیوتا رام کے نام پر مندر کیلئے مہم چلائی گئی۔ یہ مندر وہی مقام پر تعمیر کی جانے والی ہے جہاں کبھی بابری مسجد قائم تھی۔ اس نے یہ خیال کو پختہ کردیا کہ مسلمان ’’مندر کو برباد کرنے والا‘‘ ہوتا ہے۔ اورنگ زیب، ٹیپو سلطان اور دیگر مسلم بادشاہوں کی شبیہہ مسخ کی گئی کہ انھوں نے برصغیر میں طاقت کے ذریعے اسلام کو پھیلایا۔
تقسیم ہند جو بنیادی طور پر برطانوی پالیسیوں کے سبب ہوئی، اور جسے فرقہ پرست دھارے کی بھی کافی حمایت حاصل ہوئی، اسے پوری طرح مسلمانوں کے سر تھوپ دیا گیا۔ کشمیر کا جھگڑا جو علاقائی، نسلی اور دیگر تاریخی مسائل کا نتیجہ ہے، جسے پاکستان کے علاقائی تسلط کے عزائم کی تائید کرنے کی امریکی پالیسی نے مزید بڑھایا (جس نے القاعدہ کی تشکیل میں بھی رول ادا کیا) اسے بھی مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کے بار بار واقعات کے ساتھ یہ جھوٹی باتیں سماجی سوچ و فکر میں جڑ پکڑتی گئیں۔ خود تشدد مسلمانوں کی پریشانیوں کا موجب بنا اور بین برادری سماجی رابطوں کو مزید کمزور کردیا۔ ایک طرف پریشان حال کمیونٹی دیگر سے الگ تھلگ ہوگئی اور دوسری طرف مظلومین کو ہی خاطیوں کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
غلط زبان پر مبنی پروپگنڈہ، میڈیا اور اسکولی نصاب کی ازسرنو ترتیب کے ذریعے پیدا کی گئی نفرت کے نچوڑ کا اقلیتوں کے تئیں سماجی طرزعمل پر بہت بُرا اثر پڑا۔ گزشتہ دو دہوں میں نفرت پیدا کرنے کا عمل سوشل میڈیا پلیٹ فارمس نے شدید کردیا ہے، جن کو فرقہ پرست طاقتیں چالاکی سے استعمال کررہی ہیں۔ سواتی چترویدی کی کتاب I am a Troll: Inside the Secret World of the BJP’s Digital Army سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی نے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے نفرت پھیلائی۔ ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ سماج کے بڑے گوشوں کیلئے فہم و ادراک کا ذریعہ بن گئی اور ’دیگر‘ کیلئے نفرت کا منبع۔ یہ رجحان تیزی سے بڑھتا گیا ہے۔ اس عمل میں مزید اضافہ جھوٹی خبروں کے ذریعے کیا گیا جسے اختلاف و انتشار میں شدت پیدا کرنے کیلئے عیاری سے استعمال کیا گیا۔
موجودہ طور پر شاہین باغ تحریک ملک کیلئے بڑی اتحادی قوت ہے، لیکن اسے ’قوم دشمنوں‘ کے اجتماع کے طور پر بدنام کیا جارہا ہے۔ ایک بی جے پی لیڈر نے کہا ہے کہ یہ احتجاجی ریپ جیسے جرائم میں ملوث ہوں گے۔ اس سے نفرت اور بڑھی ہے۔ ایسے ماحول میں شمبھو لال ریگر اور جامعہ کا شوٹر جیسے عناصر بھڑکاؤ اور تشدد پر اُکسانے کا شکار ہوجاتے ہیں، جس سے انھیں مسلسل مشتعل کیا جاتا ہے۔ زیادہ گہرا مسئلہ موجودہ نفرت کا ماحول، غلط فہمیاں اور تعصب ہیں، جو سماجی فکر کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان بھائی چارہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں، جسے تحریک آزادی کے دوران فروغ دیا گیا تھا۔ برادرانہ ماحول ختم ہورہا ہے جو ہندوستان کی ایک قوم کے طور پر تعمیر کے عمل میں اُبھرا تھا۔ ان برادریوں کو یکجا لانے والے طریقوں کو وسیع طور پر گاندھی جی، بھگت سنگھ اور امبیڈکر سے تحریک ملی۔ یہی اقدار ہیں جن کو سوسائٹی میں دوبارہ سرایت کرنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ پرستانہ قوتیں اقلیتوں کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے میں ملوث ہیں، اور اس کا سنجیدگی سے تدارک کرنا چاہئے۔
نفرت پیدا کرنے والی ان بنیادی غلط فہمیوں کے خلاف جدوجہد بہت بڑا کام ہے جس کی ذمہ داری ایسی سماجی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو لینا چاہئے جن کو ہندوستانی دستور پر اور تحریک آزادی کے اقدار پر ایقان ہے ۔ اسے ترجیحی معاملہ کے طور پر فوری کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہندوستانی بھائی چارہ کو دوبارہ فروغ دیا جائے۔
[email protected]