مرکز کی ناراضگی سے بچنے کے سی آر اور جگن کی حکمت عملی، ریاستوں میں حکومتوں کو بچانے کی اولین فکر
حیدرآباد۔/25جولائی، ( سیاست نیوز) ایسے وقت جبکہ ملک سیاسی طور پر دو بڑے محاذوں میں تقسیم ہوچکا ہے تلنگانہ کی بی آر ایس اوراے پی کی وائی ایس آر کانگریس نے غیر جانبدار موقف اختیار کرتے ہوئے کانگریس اور بی جے پی زیر قیادت محاذوں سے یکساں دوری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ اڈیشہ کی بیجو جنتا دل کا بھی یہی موقف ہے۔ کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد کو انڈیا (INDIA) کا نام دیا گیا ہے جبکہ بی جے پی زیر قیادت اتحاد بدستور این ڈی اے (NDA) کے طور پر اپنی شناخت بنائے ہوئے ہے۔ کانگریس نے مزید ہم خیال پارٹیوں کو شامل کرتے ہوئے عوام میں آسانی سے مقبول ہونے والے INDIA کا نام دیا۔ گذشتہ 9 برسوں کے دوران نریندر مودی حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں اور اپوزیشن پارٹیوں کو کمزور کرنے کیلئے تحقیقاتی ایجنسیوں کے استعمال سے عاجز آکر 26 سے زائد اپوزیشن پارٹیوں نے 2024 لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے محاذ تشکیل دیا ہے۔ 3 ریاستوں کی برسراقتدار پارٹیوں کی جانب سے غیر جانبدارانہ موقف پر سیاسی حلقوں میں مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی سے کھل کر دوستی سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ مذکورہ تینوں پارٹیوں نے آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ درپردہ مفاہمت کی گنجائش رکھی ہے۔ جہاں تک تلنگانہ اور آندھرا پردیش کا سوال ہے کے سی آر اور جگن موہن ریڈی کو کانگریس اور تلگودیشم سے سخت چیلنج درپیش ہے۔ کے سی آر اور جگن موہن ریڈی نے گذشتہ 9 برسوں کے دوران نریندر مودی حکومت کے تمام اہم فیصلوں کی تائید کی ہے لہذا وہ مخالف مودی محاذ سے خود کو دور رکھتے ہوئے بی جے پی کو خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ مرکزی حکومت دونوں پارٹیوں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کرے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ بی آر ایس نے سابق میں بھی فیڈرل فرنٹ کے نام پر تیسرے محاذ کی ناکام مساعی کی تھی جس کا مقصد کانگریس زیر قیادت یو پی اے اتحاد کو کمزور کرنا تھا۔ اپوزیشن نے جب تیسرے محاذ کے بجائے انڈیا کے عنوان سے ایک مضبوط قومی اتحاد تشکیل دیا ہے ایسے میں بی آر ایس خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ کئی ایسے قائدین جو کل تک کے سی آر سے ربط میں تھے لیکن انہوں نے کانگریس کے ساتھ پلیٹ فارم شیئر کرنے کو ترجیح دی۔ بی آر ایس اور وائی ایس آر کانگریس کے غیر جانبدار موقف سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا اس بارے میں سیاسی مبصرین کی رائے مختلف ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ تلنگانہ میں بی آر ایس کو اسمبلی انتخابات میں فائدہ ہوسکتا ہے لیکن غیر جانبدار موقف سے لوک سبھا چناؤ میں فائدہ ممکن نہیں۔2018 اسمبلی چناؤ میں بی آر ایس کو 119 کے منجملہ 88 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ کانگریس نے 19 نشستوں پر اپنی کامیابی درج کی تھی۔ 2019 لوک سبھا انتخابات جو اسمبلی چناؤ کے 6 ماہ بعد ہوئے ٹی آر ایس کو ریاست کی 17 لوک سبھا نشستوں میں 9 پر کامیابی ملی جبکہ بی جے پی اور کانگریس کو علی الترتیب 4 اور 3 نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔ عام طور پر اسمبلی انتخابات میں رائے دہندے مقامی پارٹیوں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ لوک سبھا چناؤ میں قومی پارٹیاں عوام کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔ آندھرا پردیش کے مقابلہ بی جے پی تلنگانہ میں زیادہ مضبوط ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی اور کانگریس کے بہتر مظاہرہ کی اہم وجہ قومی پارٹیوں سے عوام کی دلچسپی ہے۔ اگر بی آر ایس این ڈی اے میں شامل ہوتی ہے یا اپوزیشن کے محاذ کو ترجیح دے تو اسے مرکز میں بی جے پی اور ریاست میں کانگریس سے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی آر ایس نے غیر جانبدار موقف اختیار کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات کو ترجیح دی ہے۔ قومی پارٹیوں کو مرکز میں تشکیل حکومت میں دلچسپی ہے جبکہ علاقائی پارٹیاں اپنی ریاستوں میں حکومت کو بچانے کیلئے جدوجہد کررہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بی آر ایس کے غیر جانبدار موقف سے بی جے پی مطمئن ہے کیونکہ اسے تلنگانہ میں اسمبلی نہ سہی لوک سبھا چناؤ میں فائدہ ہوسکتا ہے۔ بی آر ایس کے قائدین کا کہنا ہے کہ اسمبلی چناؤ کے 6 ماہ بعد لوک سبھا چناؤ ہوں گے لہذا اسمبلی نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے لوک سبھا چناؤ کی حکمت عملی طئے کی جائے گی۔ لوک سبھا چناؤ میں بی آر ایس کا جھکاؤ بی جے پی یا کانگریس کی طرف رہے گا اس بارے میں قطعی اندازہ چناؤ کے نتائج پر منحصر ہے۔ آندھرا پردیش میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کمزور ہیں اور چندرا بابو نائیڈو کی مرکزی حکومت سے قربت نے جگن موہن ریڈی کی الجھن میں اضافہ کردیا ہے۔ بی جے پی کو چندرا بابو نائیڈو سے دوستی سے روکنے کیلئے جگن نے غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تاکہ مستقبل میں بی جے پی سے مفاہمت کی گنجائش باقی رہے۔