شنتانوگوہارے ہمارے ملک
ہندوستان کے بارے میں عالمی سطح پر اس بات کو پھیلایا جارہا ہے کہ یہاں بہت زیادہ آلودگی خاص کر فضائی آلودگی پائی جاتی ہے ۔ دنیا میں آلودگی کی شرح میں اضافہ کو لیکر جب بھی مباحث ہوتے ہیں ساری انگلیاں انڈیا کی طرف اُٹھنے لگتی ہیں اور اس کیلئے انڈیا کی توانائی پالیسی کو ذمہ دار قرار دینے کی کوششیں ہوتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے جس طرح کی توانائی پالیسی اپنایا ہے وہ عالمی معیارات پر پوری طرح نہیں اُتراتی حیرت کی بات یہ ہیکہ یہ ماہرین ، جہدکار اور پالیسی ساز انڈیا سے ان معیارات کو اپنانے کیلئے کہہ رہے ہیں جو خود ان لوگوں نے زندگی میں کبھی نہیں اپنائے ۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ بحث ایک طرفہ یا جانبدارانہ ہے اور وہ تمام جو یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا زہریلی گیسوں کے اخراج کرنے والے ملکوں میں تیسرا سب سے بڑا ملک ہے اور یہ ایسے ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں جنگلات کا کٹاو بڑی تیزی سے جاری ہے انہیں خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے ،ایک بات ضرور ہیکہ نئی دہلی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کوئلہ کا جلانا یا اس کا استعمال ماحولیات کیلئے بہت نقصاندہ ہے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ انڈیا کاربن پر مبنی معیشت سے باہر نکلنے کیلئے درکار بے تحاشہ انسانی اخراجات برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے اس معاملہ میں سب سے بڑا مسئلہ جس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے وہ ترقی یافتہ ممالک سے متعلق ہے کہ آیا ان ملکوں نے زہریلی گیسوں کے اخراج میں خاطر خواہ کمی لائی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ پھر انڈیا جیسے ملک کو کوئلہ کے ذریعہ توانائی پیدا کرنے سے کیوں روک رہے ہیں ؟ آپ کو بتادیں کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران ساری دنیا بالخصوص غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، معیشت تو ایک طرح سے ٹھپ ہو کر رہ گئی تھی اور ایسے میں ہمارے ملک کے غریبوں کا برا حال رہا 75 ملین لوگ غربت کی دلدل میں ڈھکیل دیئے گئے یہ ایسے لوگ ہیں جو یومیہ صرف 2 ڈالرس پر گزارہ کرتے ہیں ایسے میں توانائی ان لوگوں کو غربت کے دلدل سے نکالنے بچوں کو ناقص غذا کے بھیانک اثرات سے بچانے نظام صحت عامہ کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ صنعتی و زرعی پیداوار کو بڑھانے کیلئے بہت اہم ہے جبکہ کوئلہ ، برقی یا بجلی کی پیداوار میں سب سے اہم مانا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہیکہ انڈیا میں بجلی کی پیداوار کیلئے عموماً کوئلہ کا متبادل نہیں ہے جہاں تک انڈیا میں بجلی کی کھپت یا استعمال کا سوال ہے ہمارا ملک دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں عوامی ضرویات کی تکمیل کیلئے بجلی کی پیداوار پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔ انڈیا میں بجلی کی سالانہ فی کس کھپت بااستعمال 972 کلو واٹ گھنٹے ہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ امریکی شہری جو بجلی استعمال کرتے ہیں اس کا صرف 8 فیصد اور جرمن جو بجلی استعمال کرتے ہیں اس کا صرف 14 فیصد ہے وہاں پر بجلی کا گرڈ ہے اور تاخیر سے ہی صحیح انڈین شہریوں نے بوتل بند پکوان گیس کا بھرپور استعمال شروع کردیا ہے جسے صاف ستھر ایندھن سمجھا جاتا ہے اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہیکہ یہ انڈور فضائی آلودگی کی جانچ کرتا ہے اس میں کمی لاتا ہے جہاں تک بوتل بند پکوان گیس کا سوال ہے یہ ترقی پذیر دنیا میں بہت زیادہ استعمال کی جارہی ہے اگر آپ انڈیا کی طلب یا ڈیمانڈ کا جائزہ لیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے وطن عزیز کو بہت زیادہ بجلی کی ضرورت ہوگی یہ بھی بات اہم ہیکہ سال 2040 تک انڈیا دنیا بھر میں توانائی کی طلب کے معاملہ میں سب سے بڑا ملک ہوگا یہ فرانس میں قائم انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی جانب سے تصدیق شدہ اعداد و شمار ہیں مختصراً یہ کہ آنے والے برسوں میں انڈیا کو روایتی اور قابل غور توانائی کے ذرائعوں کی ضرورت ہوگی اور جب توانائی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے تب کوئلہ کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کیونکہ کوئلہ ملک کی 75 فیصد بجلی پیداکرتا ہے اور مابقی 25 فیصد بجلی پن بجلی اور شمسی توانائی سے پیدا کردہ بجلی ہوتی ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ انڈیا میں ایک اندازہ کے مطابق کوئلہ کے 100 ارب ٹن ذخائر پائے جاتے ہیں اور اس معاملہ میں کول انڈیا Coal India کا حوالہ دینا ضروری ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مرکز کانکنی ہے اور یہ سالانہ 600 ملین ٹن کوئلہ کی پیداوار کرتا ہے جہاں تک کوئلہ کا سوال ہے انڈیا میں کوئلہ روزگار اور معاشی نمو کیلئے ایک اہم ذریعہ ہے اسے ہم بلاشبہ انڈیا کے صنعتیانے پروگرام کو آگے بڑھانے کا اہم ذریعہ کہہ سکتے ہیں آپ کو یہ بھی بتادیں کہ چالیس لاکھ لوگ ملک میں کوئلہ سیکٹر سے جڑے ہوئے ہیں اس کے علاوہ کوئلہ جہاں بھی بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال کیا جاتا ہے وہیں نان ۔ پاور سیکٹر جیسے سمنٹ ، اینٹ ، کھاد ، فولاد ، Iron ، Sponge اور دوسرے مختلف صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تقریباً آدھا انڈیا یعنی 800 سے زیادہ اضلاع کا انحصار کوئلہ پر ہے اور کچھ ممالک انڈیا کو کوئلہ پر انحصار سے روکنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہیکہ انڈیا کوئلہ کے استعمال کو نہیں روک سکتا ۔ جو ماہرین انڈیا سے کوئلہ کے استعمال کو روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں شائد وہ بھول چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹوئیوگوٹیرس نے ترقی یافتہ ملکوں سے صاف طور پر کیا ہیکہ پہلے انہیں مرحلہ وار انداز میں کوئلہ کا استعمال ختم کرنا چاہئے انڈیا جیسے ملکوں کو نہیں ، جہاں تک جرمن کا سوال ہے کیا اس میں دنیا کو یہ بتانے کی ہمت ہے کہ وہ 27 فیصد بجلی کوئلہ سے پیدا کرتا ہے اور جب وہ اپنے تمام جوہری پلانٹس بند کرے گا تب اس کا انحصار کوئلہ پر مزید بڑھ جائے گا اور اگر ایسا ہوگا تو اضافی 60 ملین ٹن کاربن کا اخراج ہوگا کیونکہ بجلی کی طلب پوری کرنے زیادہ سے زیادہ گیس اور کوئلہ درکار ہوں گے ۔ دنیا کو یہ جان لینا ضروری ہیکہ ہندوستان کی آبادی 140 کروڑ ہے اور وہ توانائی کے شعبہ کو کاربن سے پاک بنانے کی سخت کوشش کررہا ہے اور 2030 تک وہ 450 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی کی گنجائش پیدا کرنا اس کا مقصد ہے اس کے علاوہ انڈیا سولار ، ونڈ ، ہائیڈرو ، بائیو ماس اور جوہری پلانٹس کی تنصیب کے ذریعہ 2030 تک 500 گیگاواٹ برقی پیدا کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔