سی اے اے کے خلاف ڈرامہ بیدر میں اسکول مہر بند ، بغاوت کا مقدمہ
فیض احمد فیض کی نظم سے فرقہ پرستوں پر دہشت ، اردو نعروں سے ہیبت
حیدرآباد ۔ 29 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز ) : ہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے سے قبل ایک ایسا دور بھی دیکھا جب اخبارات خاص کر اردو اخبارات میں جو ادارئیے شائع ہوا کرتے تھے انگریز سامراج ان اداریوں سے بھی خوف میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا ۔ انگریز مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال البلاغ ، دہلی اردو اخبار ، صادق الاخبار ، پیام آزادی ، زمیندار ، پسپہ دارالسلطنت ، اردو گائیڈ ، اودھ پنچ ، نجم الاخبار ، آزاد ، رفیق ہند ، چودھویں صدی وغیرہ کے ساتھ ساتھ مولانا محمد علی جوہر کے انگریزی ہفتہ وار کامریڈ کے اداریوں پر خاصی نظر رکھی جاتی تھی ۔ ان اخبارات میں اگر کسی ادارئیے میں طوطا مینا کی کہانی بھی شائع ہوتی تو انگریز اس سے پریشان ہوجاتے اور وہ یہ سمجھتے کہ اس قصہ یا کہانی کے ذریعہ حریت پسند ہندوستانیوں کو کوئی خاص پیغام دیا جارہا ہے۔ بہر حال وہ تو انگریز تھے جنہوں نے ہمارے وطن عزیز کو لوٹا اور چلے گئے بلکہ بلالحاظ مذہب و ملت تمام ہندوستانیوں نے انہیں جانے کے لیے مجبور کیا لیکن ملک کے موجودہ حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انگریز تو سال 1947 کو ہندوستان آزاد کر گئے لیکن مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی اپنی عادت خبیثہ اپنے کچھ وفادار عناصر میں سرائیت کر گئے ۔ نتیجہ میں آج وہی عناصر ملک میں عوام کی آزادی چھیننے اور مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کررہے ہیں ۔ اس وقت انگریزوں میں اردو صحافت سے ڈر تھا ۔ آج اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے عناصر میں عوام کے طنزیہ کلام انقلابی نظموں ، شاعری ، لطائف اور کامیڈی سے بھی خوف پایا جاتا ہے ۔ اب تو بی جے پی حکومت ان ڈراموں سے بھی خوف میں مبتلا دکھائی دیتی ہے جس کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ مثال کے طور پر کرناٹک کے ضلع بیدر میں شاہین ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کے تحت چلائے جانے والے ایک اسکول کو پولیس نے صرف اس لیے مہر بند کردیا کیوں کہ اس اسکول میں چوتھی اور پانچویں جماعت کے طلبہ نے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ڈرامہ پیش کیا جس پر بی جے پی کے حامی ایک خود ساختہ سماجی کارکن نے پولیس میں یہ کہتے ہوئے شکایت درج کروائی کہ ڈرامہ میں سی اے اے کی مخالفت کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اگر یہی سوال ہم اگر ملک کے انصاف پسند عوام سے کریں گے کہ آیا مودی جی کا امیج خراب کیا جارہا ہے ؟ تو یقینا ہمیں یہ جواب ملے گا کہ مودی جی کا امیج خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ خراب تو وہ چیز ہوتی ہے جو کبھی اچھی رہی ہو!! بیدر سے موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ نہ صرف اسکول کو مہر بند کردیا گیا بلکہ اسکول کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا اور چوتھی و پانچویں جماعت کے طلبہ سے پولیس پوچھ تاچھ کررہی ہے ۔ ذرائع کے مطابق اسکول انتظامیہ نے تو یہ بھی الزام عائد کیا کہ پولیس طلبہ اور اولیائے طلبہ کو بھی ہراساں کررہی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جنوری کے اوائل میں آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ نے شاعر انقلاب فیض احمد فیض کی نظم ’ ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے ‘ کیمپس میں احتجاج کے دوران گائی تھی ۔ بے وقوفی بلکہ فرقہ پرستی کی حد یہ ہوگئی کہ اس نظم کو ہندو مخالف قرار دیا گیا اور آئی آئی ٹی کانپور نے اس بات کی تحقیقات کی کہ آیا یہ نظم ہندوؤں کی مخالف ہے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ جس نے آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ۔ ہم دیکھیں گے کے آخر یہ رپورٹ کب پیش کی جائے گی ۔ جمہوریت پسندوں اور گاندھی جی کے پیام عدم تشدد کے مخالفین کی بوکھلاہٹ کا ایک اور شرمناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ممتاز اسٹانڈ اپ کامیڈین کنال کامرا پر انڈیگو ایر لائن ، ایر انڈیا ، اسپائس جٹ اور گوایر نے 6 ماہ تک ان کے طیاروں میں سفر کرنے پر پابندی عائد کردی ۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کنال کامرا نے دوران فضائی سفر بی جے پی کے کٹر حامی اور ریپبلکن ٹی وی کے ایڈیٹر انچیف ارنب گوسوامی پر سوالات کی بوچھاڑ کردی تھی اور ان سے ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ وہ بزدل ہیں یا صحافی لیکن اپنے پروگرامس چیخ و پکار کرنے والے ارنب کسی ایک سوال کا جواب بھی نہیں دے سکے ۔ سوشیل میڈیا پر لوگ ایر لائنز کے دوہرے پن پر تنقید کررہے ہیں کہ اس نے طیارہ میں ناروا سلوک کرنے والی پرگیہ سنگھ ٹھاکر پر ایسی پابندی عائد نہیں کی ۔۔