حکومت کو حقیقت کا آئینہ دکھانے والے 250 سے زائد افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج
حیدرآباد ۔ 8 فبروری (سیاست نیوز) انگریز ہندوستان میں حکمرانی کے دوران مجاہدین آزادی کی آواز دبانے اور صحافیوں و شاعروں کے ساتھ ساتھ ادیبوںکو ڈرانے، دھمکانے کیلئے قانون بغاوت کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے۔ اب ایسا لگ رہا ہیکہ وہی دور پھر واپس آ گیا ہے جہاں حکومت اور حکمرانوں، ان کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔ فی الوقت ان طلبہ خواتین اور سماجی جہدکاروں کے خلاف بھی بغاوت کے مقدمات درج کئے جارہے ہیں جو آزادی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ نے اعلان کردیا ہیکہ جو بھی آزادی کا نعرہ بلند کرے گا اس کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد صرف اترپردیش میں تقریباً 50 افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں سادہ لوح مسلم مرد و خواتین سے لیکر معاشرہ کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کرناٹک کے ضلع بیدر میں شاہین اردو میڈیم اسکول کے چوتھی اور پانچویں جماعت کے طلبہ نے سی اے اے مخالف ڈرامہ پیش کیا جس کے خلاف بی جے پی اور مودی کے ایک ہمدرد نے پولیس میں شکایت درج کروائی کہ اس ڈرامہ میں طلبہ نے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے جس کے ساتھ ہی بیدر کی بہادر پولیس نے فوری حرکت میں آ کر اسکول کی ہیڈمسٹریس فریدہ بیگم اور ایک 9 سالہ طالبہ کی بیوہ ماں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا اور انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ حد تو یہ ہیکہ پولیس نے بچوں کے حقوق کو بری طرح پامال کرتے ہوئے ان سے ایک یا دو مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ پوچھ گچھ کی۔ یہ تو بیدر پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت و صلاحیت کی بات رہی لیکن جہاں تک 2014ء تا 2018ء درج کئے گئے بغاوت کے مقدمات کا سوال ہے ان کی تعداد جان کر آپ خود حیرت میں غرق ہوجائیں گے۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 233 مرد و خواتین کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے گئے۔ 2014ء میں 47، 2015ء میں 30، 2016ء کے دوران 35 اور 2017ء میں 51 افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمات کا اندراج عمل یں آیا۔ یہ اعدادوشمار مملکتی وزیرداخلہ جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری سوال کے جواب میں بتائے ہیں۔ یہ اعدادوشمار 2018ء تک ہیں۔ 2019ء اور 2020ء کے ابتدائی ہفتوں میں دیکھا جائے تو بغاوت کے تقریباً 50 مقدمات کا اندراج عمل میں آیا۔ شرم کی بات یہ ہیکہ ان لوگوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے جارہے ہیں جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں اس کی جھوٹ کی پول کھولتے ہیں یا اسے حقیقت کا آئینہ دکھاتے ہیں حکومت کی ناکامیوں کو منظرعام پر لاتے ہیں جبکہ گاندھی جی کو ڈرامہ باز کہنے والوں یا پھر گاندھی جی کے کاغذی مجسمہ کو گولی مار کر اپنی نفرت کا اظہار اور گوڈسے کو محب وطن ہندوستان کہنے والوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔ آپ کو بتادیں کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124A کے تحت مودی اور یوگی حکومت دانشوروں، حقوق انسانی کے جہدکاروں، فلمسازوں، یونیورسٹی کے اساتذہ، طلبہ اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے عام ہندوستانیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔ یہ دراصل انگریزوں کے دور کا قانون ہے جس کے ذریعہ سب سے پہلے ایک صحافی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ 1837 میں تھامس مکاولے نے اس قانون کا مسودہ تیار کیا تھا۔ وہ ایک برطانوی مورخ اور سیاستداں تھا۔ تاہم 1860 میں جب آئی پی سی کی تدوین ہوئی تب اسے ترک کردیا گیا۔ 1870ء میں اس میں سیکشن 124A شامل کیا گیا۔ اس کیلئے سرجیمس اسٹیفن نے ایک ترمیم متعارف کروائی تھی تاکہ قوم پرست اخبارات کے مدیران کے خلاف اس کا استعمال کیا۔ 1891ء میں پہلے بگوباسی اخبار کے ایڈیٹر جوگندر راجندر بوس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔ 1922ء میں مہاتما گاندھی شنکر لال بنکر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ انگریزوں نے یہ قانون لایا ہندوستانیوں کو دبانے کیلئے لیکن اپنے ہی ملک برطانیہ میں یہ قانون برخاست کردیا۔ آپ کو بتادیں کہ لا کمیشن نے اگست 2018ء میں ایک مشاورتی مقالہ شائع کیا جس میں سفارش کی گئی کہ اس قانون پر نظرثانی کی جائے یا پھر آئی پی سی کی دفعہ 124A منسوخ کردی جائے۔