ڈاکٹر محمد احتشام الحسن
حسب معمول صبح جب انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرنے بیٹھا تو روزنامہ ’’پائی نیر‘‘ مورخہ منگل 22 اکتوبر کے ادارتی صفحہ پر اے سوریہ پرکاش کا مضمون بعنوان ’’نیڈ ٹو ری رائٹ ہسٹری‘‘ (تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے) نظر سے گذرا جس میں دہلی کی مشہور سڑک ’’اورنگ زیب روڈ‘‘ پن کوڈ 11001 کی تصویر شائع کی گئی اور یہی وہ تصویر تھی جس نے راقم الحروف کی توجہ مضمون کی سمت مبذول کروائی، کیونکہ کسی غیرمسلم کے اورنگ زیب یا مغلیہ سلاطین پر مضمون کیلئے اپنے قلم کو حرکت دینے کے بعد ہمارے ذہنوں میں یہی ایک گمان گردش کرتا ہے کہ کس طرح مضمون نگار نے اپنے متعصب ذہن کو تحریروں میں قید کیا ہوگا، ایسا ہی کچھ سوریہ پرکاش کے مضمون میں بھی موجود تھا جس نے مغلیہ دور کے سب سے کامیاب ترین درویش صفت بادشاہ ’’اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ‘‘ کے متعلق وہی زہر افشانی کی جو آر ایس ایس ، بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں سے تعلق رکھنے والا ہر فرد کرتا ہے۔ مضمون نگار نے پھر ایک مرتبہ اس زہر افشانی کی کوشش کی ہے کہ ہندوستانی تاریخ اور خاص کر مغلیہ سلاطین کے حالات کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ مغلیہ سلاطین اور خاص کر اورنگ زیب کے متعلق تاریخ کے پردوں میں چھپے اُن رازوں کو آج اس متعصب ماحول میں افشاء کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اورنگ زیب کو ایک ظالم، مندروں کو توڑنے والا اور ہندوستانی عوام خاص کر ہندوؤں کے خلاف سخت اقدامات کرنے والا بادشاہ ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف ان کی شبیہ متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے آج کے مسلمانوں کو بھی ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ تاریخی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ اورنگ زیبؒ پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں اور ان الزامات کے تناظر میں انہیں بدنام کیا جاتا ہے، اصل میں اورنگ زیبؒ تو فقط بدنام ہیں، حقیقت میں جو الزامات تاریخ کے اس عظیم ہندوستانی بادشاہ پر لگائے جاتے ہیں، وہی ظلم و جبر آج بی جے پی اور آر ایس ایس کا پہلا مشغلہ ہے۔ اورنگ زیب کو سب سے زیادہ جس وجہ سے بدنام کیا جاتا ہے، وہ مندروں کو مسمار کرنے کا موضوع ہے۔ حالانکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیرؒ نے اپنے والد شاہجہاں کو نظربند کرنے، بڑے بھائی دارالشکوہ کو قتل کروانے اور عبادت گاہوں کو مسمار کروانے کے جو احکامات جاری کئے تھے، وہ خالص سیاسی تھے،
نہ کہ ان کے درپردہ کوئی مذہبی منشاء تھا کیونکہ اورنگ زیب نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بحیثیت انسان پرامن زندگی گذارنے کا مکمل ماحول فراہم کیا تھا۔ جن مندروں یا گولکنڈہ کی سابق جامع مسجد کو زمین دوزکروانے کی پیچھے اورنگ زیبؒ کا یہی مقصد تھا کہ انہیں حکومت کے خلاف سازشوں کا مرکز بنایا جارہا تھا اور یہ مراکز حکومت کے علاوہ عوام کی پرامن زندگی کیلئے بھی نقصاندہ تھے۔ اورنگ زیبؒ نے کئی منادر کو جائیدادیں فراہم کی تھیں، اس کا ثبوت دینے کیلئے صرف یہاں ایک مثال تحریر کرنا کافی ہوجاتا ہے۔ اڑیسہ کے سابق گورنر آنجہانی بشمبر ناتھ پانڈے جو کہ مجاہد آزادی، سماجی کارکن اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے علاوہ گاندھی جی کے فلسفہ کو دنیا بھر میں پھیلانے کیلئے شہرت رکھتے ہیں اور ان کی کئی تصانیف بھی موجود ہیں جن میں ’’اِسلام اینڈ انڈین کلچر‘‘ اور ’’اورنگ زیب‘‘ قابل ذکر ہیں۔ سابق گورنر بشمبر ناتھ پانڈے نے اپنی کتاب ’’اسلام اینڈ انڈین کلچر‘‘ میں لکھتے ہیں، مسلم حکمرانوں کے عہد میں ہندوؤں کے منادر اور دھرم شالاؤں کی حفاظت کی جاتی تھی۔ بشمبر ناتھ پانڈے نے خود کہا ہے کہ بچپن میں مَیں نے اسکول اورکالجوں میں اسی طرح کی تاریخ پڑھی تھی اور میرے دل میں بھی اسی طرح کی بدگمانیاں تھیں کہ اورنگ زیب نے منادر کوصرف نقصان ہی پہنچایا ہے لیکن ایک واقعہ نے میری رائے قطعی بدل دی۔ یہاں انہوں نے اپنا وہ واقعہ بھی بیان کیا ہے، جب وہ الہ آباد کے میونسپلٹی کے چیرمین تھے اور تربینی سنگم کے قریب سومیشور ناتھ مہادیو کے مندر کی جائیداد پر جھگڑا چلا تو اس میں اورنگ زیب کے فرمان بطورِ ثبوت پیش کئے گئے جس میں اس مندر کو جاگیر دی گئی تھی۔ بشمبر ناتھ پانڈے جو بچپن سے اورنگ زیب کو مندروں کا دُشمن سمجھتے تھے، ان کیلئے اس مغل بادشاہ کی جانب سے مندر کو جائیداد دینے حیران کن فیصلہ تھا اور اس کاجو ثبوت پیش کیا گیا وہ جعلی اور فرضی لگا تو انہوں نے تحقیق کی خاطر اسے سرتیج بہادر سپرو کے پاس بھیجا تاکہ اس کی صداقت کی جائے جس پر تیج بہادر سپرو نے اس فرمان کو اورنگ زیبؒ کا اصلی فرمان قرار دیا جس کے بعد بشمبر ناتھ پانڈے حیرت میں ڈوب گئے۔ بعدازاں تیج بہادر نے اپنے منشی کو آواز دے کر بنارس کی نگم باڑی شیو مندر کا مُسّل طلب کیا جس میں اورنگ زیبؒ کے چار شاہی فرمان موجود ہیں جوکہ مندروں کو زمین عطا کرنے کے فرمان ہیں۔ اس واقعہ کے بعد بشمبر ناتھ پانڈے نے چند قدیم مندروں کے نام مکتوب لکھے اور کہا کہ اورنگ زیبؒ یا مغل سلاطین نے کوئی جاگیر عطا کی ہو تو اس کے دستاویز روانہ کریں چنانچہ کچھ دن بعد مندر اُجین، بالاجی مندر (چتراکوٹ)، کاکاکیا اومانند مندر (گوہاٹی)، جین مندر (گرنار)، دلواڑ مندر (آبو) اور دہرادون کے گردوارہ رام رائے سے اطلاع ملی کہ ان کو بھی اورنگ زیب نے جاگیریں عطا کی تھیں۔ انگریزی روزنامہ ’’پائی نیر‘‘ کے مضمون نگار سوریہ پرکاش کو بھی شاید اس بات کا بھی علم نہیں کہ یہ تو صرف چند منادر کے نام ہیں، جن کے ساتھ اورنگ زیبؒ نے اپنی بے مثال رواداری دکھائی، اگر واقعی ہندوستان کی حقیقی اور اورنگ زیبؒ کی انسان دوست تاریخ کو لکھنا ہی ہے تو آج کے مورخین کو تعصب کا چشمہ اپنی آنکھوں سے نکال کر اورنگ زیبؒ کے تقریباً 50 سالہ دورِ حکومت کے ہر اس پہلو کو اجاگر کرنا ہوگا جس میں برصغیر کے اس عظیم بادشاہ کے درویش صفت اورانسان دوست پہلو تاریخ کی گرد میں دَب چکے ہیں۔ اورنگ زیب کو منادر مسمار کرنے اور اپنے ہی قریبی افراد کو قتل کروانے والا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے لیکن نریندر مودی کے گجرات کے چیف منسٹر سے لے کر ہندوستان کے وزیراعظم بننے تک کا دور دیکھا جائے تو سب سے پہلے گجرات کے فسادات جس میں ہزاروں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ سینکڑوں مساجد، درگاہوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور اگر اپنوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کی بات کی جائے تو گزشتہ ہفتہ مودی کے قریبی اور بھروسہ مند شخص یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت اور ریاست میں انہیں کے قریبی مانے جانے والے شخص کملیش تیواری کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور یہ الزام کملیش تیواری کی خود ماں نے ہی ریاستی حکومت پر عائد کیا۔ گجرات میں عبادت گاہوں اور اترپردیش میں کملیش تیواری کے قتل کے درپردہ کیا منشاء تھا؟ کیا یہ سیاسی مفادات کے تحت کی جانے والی کارروائیاں نہیں ہیں۔ اگر آج مودی اور یوگی اپنی حکومت کی بقاء اور خود کو اقتدار کی کرسی پر برقرار رکھنے کیلئے غیرانسانی حرکت کرتے ہیں تو وہ ان کیلئے سیاسی حکمت عملی قرار دی جاتی ہے اور دوسری جانب اورنگ زیب پر والد کو نظربند کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے تو پھر بی جے پی کی جانب سے اپوزیشن لیڈر پی چدمبرم اور لالو پرساد یادوکو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے والی کارروائیوں کے درپردہ مقاصد سے کیا عوام واقف نہیں ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس بھلے ہی سازشوں کے سیلاب لے کر ہی کیوں نہ آئیں ، وہ مغلیہ سلاطین کی رعایا کیلئے کی جانے والی فلاح و بہبود کے طاقتور ترین قلعہ کو کبھی زمین دوز نہیں کرپائیں گے ۔ اورنگ زیب کو تو فقط بدنام کیا جارہا ہے حالانکہ حقیقت میں جو الزامات ان پر لگاکر انہیں انسان دشمن بادشاہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے ، وہ سارے ظلم و جبر آج کی حکومت کررہی ہے۔ ٭
