اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان

   

2016ء کے احکامات پر عمل آوری ندارد، ہر ضلع میں کلکٹر اور ایس پی کے ساتھ کمیٹیوں کی تشکیل کے احکامات نظرانداز
حیدرآباد۔ 7 جنوری (سیاست نیوز) اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے حکومت کی سنجیدگی ناگزیر ہے۔ نئے قوانین اور وقف بورڈ کو جوڈیشیل پاورس سے متعلق وعدے اپنی جگہ ہیں لیکن حکومت اگر موجودہ احکامات پر سختی سے عمل کرے تو اوقافی جائیدادوں کا بہتر طور پر تحفظ ہوسکتا ہے۔ حکومت اگر اپنے ہی جاری کردہ احکامات کو فراموش کردے تو پھر وقف کردہ جائیدادوں کا تحفظ اور ان کی نگہبانی کی ضمانت کون لے گا؟ وقف بورڈ کو جوڈیشیل پاورس دینے کا ٹی آر ایس حکومت نے وعدہ کیا تھا لیکن پہلی میعاد میں اس وعدے کی تکمیل نہیں کی گئی۔ وقف بورڈ جو اختیارات سے عاری ہے، اسے ناجائز قبضوں کی برخاستگی میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل اور ٹی آر ایس حکومت کے دور میں جی او ایم ایس 3 مورخہ 19 فروری 2016ء جاری کیا گیا تھا جس میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ وقف پروٹیکشن اینڈ کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل کے احکامات جاری کیئے گئے۔ اس وقت کے سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے احکامات جاری کرتے ہوئے تمام ضلع کلکٹرس کو ہدایت دی تھی کہ وہ ہر ضلع میں اس طرح کی کمیٹی تشکیل دیں۔ کمیٹی کے صدرنشین خود ضلع کلکٹر ہوں گے اور ارکان کی حیثیت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس، جوائنٹ کلکٹر، ڈسٹرکٹ ریونیو آفیسر، آر ڈی او، میونسپل کمشنر، ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسر، اسسٹنٹ ڈائرکٹر ایس ایل آر، ڈسٹرکٹ رجسٹرار، کسی سماجی تنظیم کا نمائندہ، ایک خاتون اور سینئر مسلم ایڈوکیٹ کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جی او کی اجرائی کو تقریباً تین سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن آج تک کسی بھی ضلع میں یہ کمیٹی قائم نہیں کی گئی۔ ضلع کلکٹرس کو ان احکامات پر عمل آوری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی حکومت کے اعلی ذرائع کی جانب سے انہیں احکامات پر عمل کرنے کے لیے دبائو ڈالا گیا۔ یہ احکامات اس وقت جاری کیے گئے تھے جس وقت تلنگانہ میں اضلاع کی تعداد 10 تھی۔ اب جبکہ اضلاع کی تعداد 31 ہوچکی ہے اس طرح کی کمیٹیوں کے قیام کی ضرورت اور اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ کسی بھی اوقافی جائیداد کے تحفظ کے لیے ریونیو اور پولیس عہدیداروں کا تعاون ناگزیر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کمیٹی میں ضلع کلکٹر کے علاوہ سپرنٹنڈنٹ پولیس، آر ڈی او، میونسپل کمشنر اور ڈسٹرکٹ رجسٹرار کو شامل کیا گیا تاکہ کسی بھی تنازعہ کے صورت میں یکسوئی بروقت ہوسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلع واری سطح پر کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے سابق میں بھی احکامات جاری کیے گئے تھے۔ جون 2002ء میں ڈسٹرکٹ ٹاسک فورس کمیٹیوں کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاسکا۔ جی او ایم ایس 3 میں ضلع کلکٹر کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ہر ماہ میں کم از کم ایک بار اجلاس منعقد کریں اور محکمہ اقلیتی بہبود کو اپنی رپورٹ روانہ کرتے ہوئے غیر مجاز قبضوں کی نشاندہی اور برخاستگی کی تفصیلات پیش کریں۔ ڈائرکٹر اقلیتی بہبود کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ اضلاع کی رپورٹس کی بنیاد پر حکومت کو ہر ماہ رپورٹ پیش کریں۔ ڈسٹرکٹ کمیٹیوں کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ ایسی جائیدادوں کی نشاندہی کریں جنہیں تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ان کے ڈیولپمنٹ کے لیے وقف بورڈ کو تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔ ڈسٹرکٹ وقف پروٹیکشن کمیٹی اوقافی جائیدادوں کے رجسٹریشن اور پٹہ پاس بک کو منسوخ کرنے کے اقدامات کرسکتی ہے۔ کمیٹی غیر مجاز قابضین کے خلاف آئی پی سی، سی آر پی سی اور وقف ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ضلع سطح کے ترقیاتی جائزہ اجلاس میں اوقافی جائیدادوں کے مسائل کو ایجنڈے میں شامل کرنے کی ہدایت دی گئی۔ وقف امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے 2016ء کے جی او پر عمل آوری کرنی چاہئے۔