’’اَمرت کال ‘‘ حکومت سے چند سوال

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس

ہم ’امرت کال‘ میں ہے، ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ خدا کی تخلیق کردہ اس دنیا میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ۔ راقم ، حکومت سے کچھ سوال کررہا ہے۔ میرے ان سوالات پر مجھے غیرمحب وطن قرار دینے کی حماقت نہ کریں۔ اگر مجھے غیرمحب وطن سمجھتے ہیں تو مجھے معاف کردیں۔ حکومت سے میرے کئی سوال ہیں۔ ایسے سوالات جو اکثر عام ہندوستانی مجھ سے دریافت کرتے ہیں تو امید ہے کہ حکومت بناء کسی ہیراپھیری کے میرے ان سوالات کے جواب ضرور دے گی۔
(1) بلاشک و شبہ ترقی کے باوجود آیا حکومت کو اس بات کا یقین ہے کہ ہندوستان میں غربت کے بہت زیادہ واقعات ہیں؟ ہمارے ملک کی آبادی میں غریبوں کا تناسب کیا ہے؟ اگر آبادی کی نچلی سطح پر پائے جانے والے 50% لوگوں کے پاس صرف 3% دولت ہے (جیساکہ اکسفام نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے) تو کیا انہیں غریب تصور نہیں کیا جائے گا؟ کیا حکومت غربت سے متعلق عالمی ہمہ پہلو اشاریہ سے اتفاق کرتی ہے جس میں ایک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ہندوستان کی جملہ آبادی کا 16% حصہ (22.4 کروڑ افراد) غریبہیں، فیصد کچھ بھی ہو، حکومت غربت اور غریبوں کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتی؟ آخر وزیر فینانس کی 90 منٹوں کی بجٹ تقریر میں (جو یکم فروری 2023ء کو کی گئی) لفظ ’’غریب‘‘ صرف دو مرتبہ آیا)
(2) روزگار اور غذا : آیا حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پائی جاتی ہے؟ آیا یہ درست ہے کہ ہندوستان میں افرادی قوت تقریباً 47.5 کروڑ ہے اور لیبر فورس یا افرادی قوت کی شرح شراکت (ایسے لوگ جو برسرکار ہیں یا کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں) 48% ہے؟ کیونکہ مابقی افرادی قوت تقریباً 25 کروڑ۔
برسرکار نہیں یا کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں؟ کیا یہ درست ہے کہ جنوری 2020ء اور اکتوبر 2022ء کے درمیان برسرکار لوگوں کی تعداد 4500000 ، مردوں میں اور خواتین میں 96,00,000 کم تھی؟ کیا حکومت CMIE کے تخمینہ سے اتفاق کرتی ہے کہ بیروزگاری کی شرح 7.5% ہے ؟ اور ہماری وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے 90 منٹ سے زائد کی، اپنی بجٹ تقریر میں لفظ ’’بیروزگاری‘‘ کا استعمال کیوں نہیں کیا۔
(3) ہندوستان میں بڑھتی بھوک اور اس کے پھیلاؤ سے متعلق حکومت کا تخمینہ یا اندازہ کیا ہے؟آیا حکومت کو گلوبل ہنگر انڈکس 2022ء (بھوک کے عالمی اشاریہ میں ہندوستان 123 ملکوں میں 101 مقام سے 107 ویں مقام پر آگیا ہے؟ اور کیسے آیا ہے؟ اس کا پتہ ہے کیا حکومت 5 سال سے کم عمر بچوں اور خواتین میں خون کی کمی (57%) ٹھٹھراپن 36% اور بچوں کے زیاں Child-Wasting (19%) کے بارے میں باخبر ہے؟ کیا حکومت ان بچوں میں پائے جانے والے ناقص غذا اور مناسب خوراک کے فقدان سے اتفاق کرتی ہے، اسے پتہ ہے کہ ناقص غذا اور مناسب خوراک کے فقدان کے نتیجہ میں ہی خواتین اور بچوں میں خون کی کمی اور مذکورہ عوارض پائے جاتے ہیں یعنی بچے ٹھٹھر جاتے ہیں، ان کی مناسب طور پر جسمانی نمو نہیں ہوتی۔ کیا حکومت ان وجوہات اور اسباب کی وضاحت کرے گی کہ کیوں مڈ ڈے میل اسکیم برائے سال 2023-24ء کیلئے بجٹ میں مختص رقم کو 1200 کروڑ روپئے تک کیوں گھٹایا گیا ؟ آیا حکومت یہ بتانے کی زحمت کرے گی کہ غذائی اشیاء یا خوراک پر دی جانے والی سبسڈی میں سال 2023-24ء کیلئے 80,000 کروڑ روپئے تک کٹوتی کیوں کی گئی؟
(4) آیا حکومت یہ بتائے گی کہ 2023-24ء میں کھاد پر دی جانے والی سبسڈی میں 60,000 کروڑ روپئے تک کمی کیوں کی گئی، اس کے اقدام سے کیا کھاد اور ساتھ ہی غذائی اشیاء سے متعلق فصلوں کی قیمت پیداوار میں اضافہ نہیں ہوگا؟ اور کیا اس کے نتیجہ میں غذا اور غذائی اشیاء کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی؟ آیا حکومت کے اس اقدام سے غریب خاندانوں کے اشیائے ضروریہ استعمال کرنے میں کمی نہیں آئے گی؟
(5) مخلوعہ جائیدادیں: کیا یہ سچ ہے کہ ہندوستان میں ایسے 1,17,000 اسکولس ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر ہے یعنی یہ Single Teacher Schools ہیں اور ان میں سے 16% اسکولس (16,630) صرف ریاست مدھیہ پردیش میں ہیں ؟ کیا حکومت برائے مہربانی اس امر کی وضاحت کرے گی کہ صرف ایک ٹیچر کیسے پرائمری اسکول کے پانچویں جماعتوں کے طلباء و طالبات کو پڑھا سکتی ہے؟ آخر کیوں ان اسکولوں میں زیادہ تعداد میں اساتذہ کے تقررات یا بھرتیاں نہیں کی گئیں؟ کیا یہ اس لئے ہے کیونکہ کوالیفائیڈ (اہل) اساتذہ کا فقدان ہے یا پھر ان کی خدمات حاصل کرنے کیلئے حکومت کے پاس رقم نہیں ہے؟ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ بچوں نے ان اسکولوں میں کیا سیکھا اور انہیں کیا سکھایا جارہا ہے؟
(6) کیا یہ درست ہے کہ ہزاروں لاکھوں نوجوان مرد اور اب خواتین سنٹرل آرمڈ پولیس فورس یا مسلح فورس میں کیریئر بنانے کے خواہاں ہیں؟ آیا حکومت اس بات سے باخبر ہے کہ سی اے پی ایفس میں 84,405 مخلوعہ جائیدادیں ہیں؟ آخر کیوں CAPFs میں مسلسل تقررات یا بھرتیاں نہیں کی جارہی ہیں؟ جب بھی جائیدادیں مخلوعہ ہوں، منتخب امیدواروں کی فوری بھرتیاں کی جاسکتی ہیں؟ کیا حکومت اس بات سے بھی واقف ہے کہ ان عہدوں پر فائز ہونے کے خواہاں نوجوان مرد و خواتین کم تعلیم یافتہ ہیں اور ان کا ملک کے غریب خاندانوں سے تعلق ہے؟ کیا حکومت اس بات سے بھی باخبر ہے کہ ان میں سے کئی کا معاشرہ کے سماجی طور پر پسماندہ اور حساس طبقات سے تعلق ہوگا؟
(7) کیا یہ درست ہے کہ ملک کے 23 انڈین انسٹیٹیوشن آف ٹیکنالوجی میں اساتذہ کی منظورہ 8,153 جائیدادوں میں سے 3,253 جائیدادیں مخلوعہ ہیں؟ کیا یہ بھی سچ ہے کہ 55 مرکزی جامعات (یونیورسٹیز) میں منظورہ 18,956 جائیدادوں میں سے 6,180 جائیدادیں مخلوعہ ہیں؟ چونکہ آئی آئی ٹیز اور سنٹرل یونیورسٹیز راست مرکزی حکومت کے تحت ہوتی ہیں پھر کیوں ان آئی آئی ٹیز اور مرکزی یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ اساتذہ کے تقررات نہیں کئے جارہے ہیں؟ کیا یہ بھی درست ہے کہ زیادہ تر جائیدادیں ان عہدوں کیلئے ہیں جو او بی سیز، ایس سیز اور ایس ٹیز کیلئے محفوظ ہیں؟ کیا یہ جائیدادیں اس لئے مخلوعہ ہیں کیونکہ اہل اساتدہ نہیں ہیں یا ان کی خدمات حاصل کرنے کیلئے رقم کی کمی ہے؟
(8) کیا یہ صحیح ہے کہ گزشتہ 9 برسوں میں ہر سال ایک لاکھ ہندوستانی شہری اپنی شہریت ترک کرتے ہوئے ہندوستان کو الوداع کہہ رہے ہیں؟ اور کیا یہ بھی درست ہے کہ سال 2022ء میں 2,25,000 ہندوستانیوں نے ہندوستانی شہریت ترک کرکے دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کی؟ آیا حکومت نے تحقیقات کروائی ہے کہ آخر اس قدر کثیر تعداد میں ہندوستانیوں نے اپنی شہریت کیوں ترک کی ہے؟ یہ سمجھا جاتا ہے کہ امرت کال میں انسانوں کیلئے خوشی و مسرت کے دروازے کھلیں گے، یہ سوال جن کے جوابات دیئے جائیں تو ان سے کم از کم لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں کیلئے مواقع کے دریچے کھلیں گے۔ خوشی اور مسرت نہیں تو کم از کم غذا اور روزگار تو انہیں ضرور حاصل ہوگا۔