اُترپردیش کے عوام کو کس نے ناکام کیا ؟

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس

ریاست اُترپردیش میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو اسے ایک سیاسی اور معاشی طور پر کامیاب ریاست بناسکتی ہیں۔ ایک وسیع و عریض ریاست ( 243,286 ) مربع کیلومیٹر کا رقبہ ‘ ایک بڑی آبادی ( 204 ملین ) اور مزید اضافہ جاری ‘ ہمیشہ رواں دواں رہنے والی دریائیں ( گنگا اور جمنا ) اور وہاں کے سخت محنتی لوگ ۔ جواہر لال نہرو ‘ لال بہادر شاستری ‘ اندرا گاندھی ‘ چرن سنگھ ‘ راجیو گاندھی ‘ وی پی سنگھ ‘ چندر شیکھر اور اٹل بہاری واجپائی ‘ تمام وزرائے اعظم ‘ اُترپردیش ہی سے منتخب ہوئے تھے ۔ اس کے باوجود کئی برسوں سے اُترپردیش کو ایک ناکام ریاست سمجھا جاتا ہے ۔ پہلے میں ناکام ریاست کی تشریح کردوں ‘ شروعات عالمی سطح پر قبول کئے جانے والے فروغ انسانی کے اشاروں سے کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں جملہ ریاستی گھریلو پیداوار کی شرح ترقی ‘ فی کس آمدنی اور ریاست کے قرض کے بوجھ کا جائزہ لینا ہوگا ۔ اس میںصحت و تعلیم پر سرکاری سروے کے اعداد و شمار کو دیکھنا ہوگا اور جرائم ‘ بیروزگاری اور نقل مقامی پر اعداد و شمار کی بھی گنتی کرنی ہوگی ۔ اگر ان سب کی جمع ایک تلخ تجربہ بیان کرتی ہے تو یہ ایک ناکام ریاست ہے ۔
اُترپردیش میں آخری مرتبہ کانگریس پارٹی 1980-89 میں برسر اقتدار تھی ۔ گذشتہ 32 برسوں میں ریاست پر تین جماعتوں بی جے پی ‘ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے حکومت کی ہے ۔ ریاست کی بہتری ہوئی ہو یا ابتری ہوئی ہو ان ہی تین جماعتوں کو ذمہ داری قبول کرنی چاہئے ۔ مسٹر آدتیہ ناتھ ( بی جے پی ) 2017 مارچ سے ریاست کے چیف منسٹر ہیں۔ میرے پرکھنے کے تین نکات کام ‘ فلاح و بہبود اور دولت ہیں۔ ہم اس ٹسٹ کو اُترپردیش میں جانچتے ہیں جہاں بڑے معاشی ڈاٹا پر توجہ دی جاتی ہے ۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت میں اگر کل ہند سطح کے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو جملہ ریاستی گھریلو پیداوار میں کافی کمی آئی ہے ۔ 2016-17 میں 11.4 فیصد تھی ۔ 2017-18 میں یہ 4.6 فیصد ہوگئی ۔ 2018-19 میں یہ 6.3 فیصد تھی جو 2019-20 میں یہ محض 3.8 فیصد ہوگئی اور اب 2020-21 میں یہ منفی 6.4 فیصد تک گرگئی ہے ۔ اُترپردیش میں فی کس آمدنی ہندوستان کی اوسط آمدنی سے نصف سے بھی کم ہے ۔ 2017-18 سے 2020-21 کے درمیان اُترپردیش میں فی کس آمدنی میں 1.9 فیصد کی گراوٹ آئی ۔ چار برس کے دوران ریاست کے قرضہ جات میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا ۔ مارچ 2021 تک ریاست کا جملہ قرض 6,62,891 کروڑ روپئے ہے جو جملہ ریاستی گھریلو پیداوار کا 34.2 فیصد ہے ۔ نیتی آیوگ کی ہمہ جہتی غربت انڈیکس رپورٹ 2021 کے مطابق ریاست میں 37.9 فیصد عوام غریب ہیں۔ 12 اضلاع تو ایسے ہیں جہاں یہ شرح 50 فیصد سے زیادہ اور تین اضلاع میں70 فیصد سے زیادہ ہے ۔ نتیجہ سبھی کو دکھتا ہے۔ اُترپردیش ایک غریب ریاست ہے ۔ یہاں کے عوام غریب ہیں اور آدتیہ ناتھ کی حکومت میں یہ مزید غریب ہوتے جا رہے ہیں۔
نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اُترپردیش میں بیروزگاری کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے ۔ اپریل 2018 سے 15 تا 29 سال عمر والوں کے درمیان بیروزگاری کی شرح دو ہندسوں میں ہے اور اس گروپ میں کل ہند سطح کی شرح سے زیادہ ہے ۔ 15 تا 29 سال عمر والی خواتین میں بیروزگاری کی شرح جولائی ۔ ستمبر 2020 میں 40.8 فیصد تھی ۔ اپریل 2018 تا مارچ 2021 کے ڈاٹا کے مطابق شہری علاقوں میں ہر چار میں ایک نوجوان بیروزگار ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لوگ اُترپردیش کے باہر نقل مقامی کر رہے ہیں۔ مائیگریشن امور کے جرنل مارچ 2020 کے مطابق اُترپردیش میں بین ریاستی ترک وطن کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ 12.32 ملین ہے ۔ یہ ریاست میں ہر 16 میں ایک شہری کے برابر ہے ۔ 25 مارچ 2020 کو ملک گیر لاک ڈاون کے بعد ہم نے لاکھوں مزدوروں کی پیدل اپنے آبائی مقامات بیشتر اُترپردیش اور بہار کو واپسی کے دلخراش مناظر دیکھے ہیں ۔ ایک غریب ریاست اور جہاں ناقص حکمرانی ہے وہاں عوام کی فلاح و بہبود بھی ناقص ہے ۔ اُترپردیش میں تعلیم پر فی کس سب سے کم رقم خرچ کی جاتی ہے ۔ طالب علم ۔ استاد کا تناسب ریاستوں میں سب سے زیادہ ہے ۔ اُترپردیش میں اساتذہ کی قلت کو دور کرنے کیلئے 2,77,000 اساتذہ کی ضرورت ہے ۔ ASER 2021 کے مطابق تعلیم حاصل کرنے والے 38.7 فیصد طلبا ٹیوشن لینے پر مجبور ہیں جن سے طلبا کی ضروریات سے نمٹنے میں ریاست کی ناکامی اور اسکولی نظام کے ٹھپ ہوجانے کا پتہ چلتا ہے ۔ ہر آٹھ میں ایک طالب علم آٹھویں جماعت میں تعلیم ترک کردیتا ہے ۔ ہائر سکنڈری سطح پر جملہ اندراج کی سطح 46.88 فیصد ہے اور کالج / یونیورسٹی کی سطح پر یہ شرح 25.3 فیصد ہے ۔ ریاست میں نگہداشت صحت کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہے ۔ اُترپردیش میں NMR 35.7 فیصد IMR 50.4 فیصد اور پانچ سال کے اندر موت کی شرح 59.8 فیصد ہے اور یہ تمام اعداد و شمار قومی اوسط سے زیادہ ہیں۔ ڈاکٹرس کا تناسب بھی صرف 0.64 فیصد نرسیس کا تناسب 0.43 فیصد اور نیم طبی عملہ کا تناسب 1.38 فیصد ہے جو قومی اوسط سے بہت کم ہے ۔ ہر ایک لاکھ کی آبادی کیلئے ضلع ہاسپٹلس میں محض 13 بستر موجود ہیں۔ نیتی آیوگ کے ہیلت انڈیکس میں 2019-20 میںختم ہوئے چار ادوار میں اُترپردیش سب سے نیچے رہا ۔
مسٹر آدتیہ ناتھ کا جو طرز حکمرانی ہے وہ انتہائی خامیوں بھرا ہے ۔ وہ بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور ساتھ میں چھڑی بھی رکھتے ہیں ۔ یہ طرز حکمرانی آمریت ‘ ذات پات کے تسلط ‘ مذہبی منافرت ‘ پولیس مظالم اور جنسی تشدد کا خطرناک امتزاج ہے ۔ سیاست میں انکاؤنٹر ‘ بلڈوزر اور 80 بمقابلہ 20 جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ بی جے پی اس مفروضہ کو امتیاز بنانے پر تلی ہوئی ہے کہ مذہب عوام کی افیون ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اُترپردیش میں انتخابات دو رخی بی جے پی اور سماجوادی پارٹی کے درمیان ہے ۔ امیت شاہ اور مایاوتی کے درمیان نرم الفاظ کا استعمال خفیہ منصوبہ کو ظاہر کرتا ہے ۔ ایک دلیرانہ کوشش میں کانگریس نے تمام 403 حلقوں میں اپنا پرچم اور اپنا نشان بلند کیا ہے ۔ جو لوگ ایک تبدیلی کیلئے ووٹ دینگے اگر وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تب بھی انتخابات کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ آخر میں ہم کو مضمون کا جو عنوان ہے اس کا جواب 2022 میں بھی نہیں مل پائے گا ۔