بچو! استاد میری نظر میں سب سے اچھا اور سب سے زیادہ احترام کا رشتہ ہے، ہمارے والدین بھی ہمارے لئے بہت کچھ کرتے ہیں مگر وہ تو ہمیں دنیا میں لے کر آتے ہیں جبکہ استاد ہمیں آسمان کی بلندیوں تک لے جاتا ہے، اسی طرح آپ نے خلیفہ ہارون الرشید کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ ان کے ایک بیٹے کا نام مامون الرشید تھا۔ ایک دن مامون الرشید کی والدہ نے اس کے استاد کو کہلا بھیجا کہ ’’شہزادہ گھر میں شرارتیں کرتا ہے ، لہذا آپ اسے سزا دیں‘‘۔ استاد نے شہزادے کے منہ پر دوچار طمانچے لگاکر کان پکڑوادیئے۔ جس سے مامون کو اتنی تکلیف ہوئی کہ بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ شہزادہ کان پکڑے ہوئے رو رہا تھا کہ چپراسی نے آکر استاد سے کہا: ’’وزیر شہزادے سے ملنے کی اجازت چاہتا ہے‘‘۔ استاد نے شہزادے سے کہا: ’’کان چھوڑ دو اور ذرا صحیح ہوکر بیٹھو‘‘۔ شہزادے کا چہرہ آنسوؤں سے بھرا ہوا سرخی سے تمتما رہا تھا مگر وہ جھٹ رومال سے منہ پونچھ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور وزیر کے جانے تک اسی طرح بیٹھا رہا کہ اسے اس کی کسی حرکت سے سزا کا خیال تک نہ گزرے۔ وزیر کے جانے پر استاد نے شہزادے سے کہا: ’’اگرچہ میں نے سزا تمہیں تمہاری ہی بھلائی کیلئے دی تھی مگر تم نے اچھا کیا کہ وزیر سے شکایت نہ کی‘‘۔ تو شہزادے نہ کہا: ’’جناب! جو طالب علم استاد کی شکایت کرتا ہے وہ مراد کو نہیں پہنچ سکتا۔ میں آپ کی شکایت کرکے خود کو کیوں بے نصیب بناتا‘‘۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے استاد کی ڈانٹ دوسروں تک نہ پہنچائیں کیونکہ جو استاد کا مقام ہے، وہ دنیا میں اور کسی کا نہیں اور جو اپنے استاد کی عزت کرتا ہے، دنیا اس کی عزت کرتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ دل و جاں سے استاد کا احترام کریں، استاد کی عزت کریں کیونکہ اسی میں ہماری کامیابی ہے۔ ہماری فلاح ہے۔