اُصول بیچ کے مسند خریدنے والو

   

بہار چناؤ … ووٹ چوری کے بعد ووٹ خریدی
نفرت کی سیاست … سڑک سے سپریم کورٹ تک

رشیدالدین
’’ ووٹ چوری کے بعد ووٹ خریدی‘‘ الیکشن کمیشن نے بہار میں فری اینڈ فیر یعنی آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا اعلان کردیا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور فری اینڈ فیر الیکشن کی بات کچھ ہضم نہیں ہوگی کیونکہ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار دستوری عہدہ کے سربراہ سے زیادہ بی جے پی لیڈر کی طرح مودی حکومت کی وفاداری کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ گیانیش کمار کے رول پر بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ الیکشن کمیشن کی تاریخ میں ملک نے ایسا متنازعہ اور جانبدار مودی پرست عہدیدار نہیں دیکھا جو ووٹ چوری سے متعلق دستاویزی ثبوت تسلیم کرنے تیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن پر سیاسی پارٹیوں اور عوام کا اعتماد تو پہلے ہی اٹھ چکا ہے اور تازہ ترین معاملہ میں سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ کانگریس قائد راہول گاندھی نے ملک کے کئی علاقوں میں ووٹ چوری کے ذریعہ بی جے پی کی مدد کے بارے میں دستاویزی ثبوت پیش کئے لیکن گیانیش کمار نے تحقیقات کے بغیر ہی الزامات کو مسترد کردیا۔ حتیٰ کہ راہول گاندھی سے معذرت خواہی کا مطالبہ کیا گیا۔ معذرت تو گیانیش کمار کو قوم سے کرنی چاہئے جو ووٹر لسٹ میں دھاندلیوں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کے ذریعہ بی جے پی کی شکست کو کامیابی میں تبدیل کرتے رہے۔ ’’ووٹ چور گدی چھوڑ‘‘ کا نعرہ جب زبان زد خاص و عام ہوگیا تو سپریم کورٹ کو بھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال کرنے پڑے۔ بہار میں فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظر ثانی کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا وہ سپریم کورٹ کی جانچ میں مشکوک ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فہرست سے خارج کردہ تقریباً 3.70 لاکھ رائے دہندوں کے بارے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے بجائے عدلیہ کے ادارہ لیگل سرویسز اتھاریٹی کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ فہرست سے خارج رائے دہندوں کی اپیل میں مدد کرے۔ جس طرح مودی حکومت سے سچائی کی امید نہیں کی جاسکتی، اسی طرح الیکشن کمیشن سے آزادانہ و منصفانہ چناؤ کی امید کرنا فضول ہے۔ گیانیش کمار نے 6 اکتوبر جب بہار میں فری اینڈ فیر الیکشن کا اعلان کیا تو ہر کسی کو ہنسی آگئی کیونکہ الیکشن شیڈول کے اعلان سے عین قبل نتیش کمار حکومت نے بہار کی 21 لاکھ خواتین کے بینک اکاؤنٹ میں فی کس 10,000 روپئے جمع کرتے ہوئے جملہ 2100 کروڑ کی تقسیم عمل میں لائی ۔ فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کے نام پر ووٹ چوری کے ذریعہ بی جے پی کو کامیاب بنانے کی منصوبہ بندی کے دوران ووٹ خریدی اسکام نہیں تو کیا ہے؟ بہار جسے پسماندگی کے اعتبار سے بیمارو ریاست کہا جاتا ہے ، جہاں غریبوں کیلئے ایک ماہ میں 6000 کی آمدنی بھی مشکل ہے ، وہاں 21 لاکھ خواتین کے بینک اکاونٹس میں فی کس 10,000 روپئے جمع کرنے کا مقصد نوٹ برائے ووٹ اسکام ہی ہوگا۔ خواتین میں نتیش کمار حکومت کی جانب سے 2100 کروڑ کی تقسیم کے فوری بعد گیانیش کمار نے فری اینڈ فیر الیکشن کا دعویٰ کیا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ الیکشن کمیشن کو نتیش کمار سے پوچھ لینا چاہئے تھا کہ 10,000 کی رقم سے کوئی محروم تو نہیں ہے تاکہ اس کے اکاؤنٹ میں منتقلی تک تاریخوں کے اعلان کو موخر کیا جائے۔ نتیش کمار نے کھلے عام رائے دہندوں کو رشوت دی ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے قبل یہ رقومات منتقل کی گئیں۔ اگر کسی اپوزیشن پارٹی بالخصوص کانگریس کی حکومت یہ حرکت کرتی تو کیا الیکشن کمیشن خاموش رہتا ؟ انتخابی تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب بہار میں ووٹ خریدی کیلئے بن مانگے ہزاروں روپئے بینک اکاؤنٹ میں جمع کردیئے گئے۔ اس طرح انتخابی مہم اور رائے دہی کے دن رقومات کی تقسیم کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ الیکشن سے تین ماہ قبل بہار میں NIMO بینک کھول دیا گیا یعنی نتیش مودی بینک جس کے ذریعہ خواتین، طلبہ ، بیروزگار نوجوانوں اور دوسروں کے بینک اکاؤنٹس میں کسی نہ کسی بہانے رقومات جمع کی گئیں۔ NIMO بینک کے ذریعہ تین ماہ قبل سے ہی ووٹرس کی اڈوانس بکنگ شروع کردی گئیں۔ووٹ چوری کے خلاف بہار میں راہول گاندھی کی مہم نے بی جے پی ۔جنتا دل یونائٹیڈ کی شکست کا پروانہ جاری کردیا تھا۔ عوامی ناراضگی سے بوکھلاہٹ کا شکار مودی۔نتیش کمار جوڑی نے ووٹ خریدی کا نیا حربہ استعمال کیا تاکہ انتخابی مہم کے آ غاز سے قبل ہی ووٹرس کو خرید لیا جائے۔ جس فہرست رائے دہندگان کا مستقبل سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ٹکا ہے، اسی فہرست کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے چناؤ کا اعلان کردیا جو 6 اور 11 نومبر کو دو مراحل میں ہوں گے۔ فہرست پر نظر ثانی کے معاملہ میں الیکشن کمیشن اپنا منہ میاں مٹھو کی طرح اپنی تعریف میں مگن ہے لیکن سپریم کورٹ کے کئی سوالات کا جواب ابھی باقی ہے۔ ماہرین کے مطابق آبادی کے اعتبار سے بہار کے رائے دہندے 8.22 کروڑ ہونے چاہئے ۔ فہرست کے اعتبار سے 80 لاکھ ووٹرس کم ہیں ۔ کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ یکم ستمبر تک 16 لاکھ 93 ہزار افراد نے فہرست میں شمولیت کی درخواست کی اور 21 لاکھ 53 ہزار کی درخواستیں قبول کی گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 4 لاکھ 60 ہزار ووٹ کہاں سے آگئے ۔ الیکشن کمیشن کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ 3 لاکھ 70 ہزار نام حذف کئے گئے لیکن وجوہات کے بارے میں کمیشن کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سپریم کورٹ نے حذف کردہ ناموں کو برسر عام کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ اپیل کا موقع دیا جائے۔ قطعی فہرست میں 24 لاکھ ناموں کی جگہ محض ABCD درج ہے اور دو لاکھ ووٹرس کے ایڈریس نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے رائے شماری اور نتائج کے اعلان کی تاریخ 14 نومبر رکھی ہے جو کہ سابق وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا یوم پیدائش ہے جسے یوم اطفال کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جان بوجھ کر یہ تاریخ طئے کی گئی ہو تاکہ نہرو کے یوم پیدائش کے دن نہرو خاندان یعنی کانگریس کی شکست کا جشن منایا جاسکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 14 نومبر کیا بہار کی سیاسی تاریخ تبدیل کرے گا؟
نفرت کی سیاست سڑک سے سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں مودی دور اقتدار میں جس طرح اقلیتوں ، عیسائیوں اور دلتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، اس کے زیر اثر سماج کے تمام طبقات متاثر ہوچکے ہیں ۔ ہندو راشٹر کی تشکیل کے نام پر اکثریتی طبقہ اور خاص طور پر تعلیم یافتہ افراد کو ہندوتوا ایجنڈہ کے قریب کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نظم و نسق میں ہندوتوا نظریات کی تائید اور حوصلہ افزائی کرنے والے کھل کر اقلیتوں اور دلتوں کو نشانہ بنارہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی پر بھری عدالت میں جوتا پھینکنے کی جسارت کی گئی۔ 72 سالہ راکیش کشور ایڈوکیٹ نے چیف جسٹس پر جوتا پھینکا اور نعرہ بازی کے ذریعہ سنگھ پریوار سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیا ہے ۔ راکیش کشور نے نعرہ لگایا کہ ’’سناتن کا اپمان۔ نہیں سہے گا ہندوستان‘‘ ۔ میڈیا کی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ راکیش کشور آر ایس ایس نظریات کا حامل ہے اور وہ کئی دن سے چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار کر رہا تھا۔ نریندر مودی کی طرح راکیش کشور نے بھی کہا کہ بھگوان نے اسے یہ کام کرایا ہے۔ جس طرح مودی خود کو بھگوان کا اوتار بتاتے ہیں ، اسی طرح راکیش کشور نے بھی بھگوان کے اشارہ پر چیف جسٹس کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے ۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ پر جوتا پھینکا گیا لیکن وزیراعظم نریندر مودی کو مذمت کرنے کیلئے کئی گھنٹے لگ گئے جبکہ مرکزی وزیر داخلہ اور وزیر قانون نے آج تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ گودی میڈیا کے چیانلس پر اس واقعہ کو معمولی اور غیر اہم طریقہ سے پیش کرتے ہوئے حملہ آور کا انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے بی جے پی سوشیل میڈیا ہینڈل سے جسٹس بی آر گوائی کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی۔ جسٹس گوائی ملک کے دوسرے دلت اور پہلے بودھ دھرم کے چیف جسٹس ہیں۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے بھی اپنے حامیوں کے ساتھ بودھ دھرم قبول کرلیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دلت اور بودھ دھرم سے چیف جسٹس کا تعلق نفرت کے سوداگروں کو پسند نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے حملہ آور کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور دہلی پولیس نے بھی راکیش کشور کو کسی کارروائی کے بغیر چھوڑ دیا۔ حکومت اگر چاہتی تو حملہ آور کے خلاف کارروائی کرسکتی تھی لیکن سنگھ پریوار کے نظریات کو پیش کرنے والے شخص کے خلاف کارروائی کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے ۔ اگر حملہ آور کسی اور مذہب اور خاص طور پر مسلمان ہوتا تو اس کا کورٹ ہال سے زندہ بچ نکلنا مشکل ہوجاتا۔ گودی میڈیا اور حکومت کی جانب سے اسے پاکستان ، آئی ایس آئی اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلق جوڑ دیا جاتا۔ سپریم کورٹ میں پیش آیا یہ واقعہ ملک میں نفرت اور فرقہ پرستی کے ماحول کا عروج ہے اور دستوری عہدوں پر فائز افراد بھی محفوظ نہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
اُصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم